محکم یقین اور جرأت کی ضرورت

May 20, 2022

حضرت علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

ایک عرصے کی کوششوں کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی اور شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ اوپر سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کوبھی نامزد کردیا۔

یہ ایک الگ تماشہ ہے کہ حمزہ شہباز کی وزارت ِاعلیٰ ایک مہینے سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود معلق اور بے یقینی کا شکار ہے۔ اس کا کسی اور کالم میں جائزہ لیں گے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور گورنر کی وجہ سے پنجاب کے عوام کے ساتھ کتنی زیادتی ہورہی ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔

فی الحال وفاق میں شہباز شریف کی حکومت ہے، جو غیر یقینی کا شکار ہے اور آنیوالے دنوں کے بارے میں شکوک وشبہات اور افواہوں کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اگر موازنہ کیا جائے تو ان میں اس وقت بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں مختلف الخیال لوگ اور گروپس ہیں۔

پنجاب میں ایسی ہی صورتحال کی وجہ سے تحریک انصاف کی صوبائی اسمبلی میں عددی اکثریت گھٹ گئی یہی حال وفاق میں بھی ہے۔

دیگر عوامل کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت بڑے خسارے میں چلی جاتی ہے جب اس میں مختلف گروپس بن جاتے ہیں۔

ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی ایک ایسی منظم جماعت ہے جس میں کوئی گروپ بندی نہیں ہے۔ ن لیگ اب خراب معاشی حالات کو گند کا ٹوکرا کہتی ہے اور ان میں مختلف لوگوں کی اس حوالے سے بھی مختلف آرا ہیں۔ لیکن بااثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عمران خان کا ٹوکرا ہے تو ن لیگ اس کو کیوں اٹھائے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے پارٹی کی سیاسی پوزیشن بہت خراب ہو سکتی ہے۔ اوپر سے نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف اور بعض چیدہ چیدہ رہنمائوں، جو وزرا بھی ہیں کو لندن بلاکر اجلاس منعقد کرکے اپنی رائے دی۔

جس کے مطابق وزیر اعظم نے ایک ہفتہ بعد واپس آکر اتحادیوں سے’’ مشاورت‘‘ کرکے اس بات کی ضمانت مانگی کہ پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کرنے میں وہ ساتھ دیں گے یا پھر بغیر انتخابی اصلاحات کے الیکشن کے انعقاد کی تاریخ دے دی جائے؟ تمام اتحادیوں نے ساتھ دینے کی یقین دہانی کرادی۔

اب اس کے بعد مخمصہ یہ پیدا ہوا کہ مقتدر ادارے بھی یقین دہانی کرادیں کہ وہ اگر اس حکومت کو باقی مدت یقینی ڈیڑھ سال پورا کرنے میں تعاون کریں تو پھر حکومت مذکورہ اقدامات اٹھائے بصورت دیگر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف کو موجودہ معاشی صورتحال کا علم نہیں تھا اگر علم نہیں تھا تو پھر وہ حکومت اورسیاست کا تجربہ کہاں گیا اور اگر علم تھا جو کہ عام پاکستانی کو بھی ہے تو پھر حکومت کیوں لی۔ اور تحریک عدم اعتماد کا معرکہ کیوں چھیڑا تھا۔ لیکن ہر دوصورتوں میں اب جب پنگا لے ہی لیا ہے۔

اتحادی بھی شانہ بشانہ ہیں اور ذرائع کے مطابق کہیں سے معقول مدد بھی آسکتی ہے تو پھر گھبرانا کیسا؟ ڈر ڈر کر تو کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا۔ رسک لینا پڑتا ہے ورنہ گھر جاکر بیٹھ جائیں۔ 23 کروڑ عوام کا ملک خوفزدہ طریقے سے نہیں چلایا جاسکتا۔

دوسری طرف جتنے زیادہ مشورے دینے والے ہوتے ہیں اتنا ہی نقصان کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ عمران خان کی مثال سامنے ہے۔

حکمران میں یہ جرأت اور صلاحیت ضروری ہے کہ وہ فیصلہ کرسکے۔ ن لیگ میں کار آمد رہنما بھی شہباز حکومت میں غیر موثر ہورہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ اور احسن اقبال سمیت کام کے رہنمائوں کو مکمل اختیارات نہ دے کر ضائع کیاجارہاہے۔

اگر شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو غیر موثر اور بے اختیار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور ارکان پارلیمنٹ کو صورتحال سے آگاہ کریں اور پارلیمنٹ خود اپنے آپ کو موثر اور بااختیار ثابت کرے۔

شکوے کرنے اور گارنٹیاں مانگنے سے حکومتیں نہیں چلتیں۔ وزیر اعظم کو ہر معاملہ میں بولڈ اقدامات کرنے چاہئیں جو ملک وقوم کے مفاد میں ہوں۔ مسلمان تو ہر معاملہ میں اللہ کریم پر یقین اور بھروسہ رکھ کرچلتا ہے۔ دیگر لوگ امید کے سہارے چلتے ہیں اگر نیت صاف ہوتو اللہ رحیم وکریم آسانیاں ضرور پیدا کرتا ہے۔

اس وقت سیاستدانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملک بچانا ہے یا سیاست۔ملک ہے تو سیاست ہے یہ تو ہربندہ جانتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اکثر اہم لوگ شاید یہ’’نہیں‘‘ جانتے،عمران خان نے اس وقت ملک سمیت سیاست وغیرہ سب کچھ دائو پرلگا رکھا ہے اور فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں،۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شاید بعض ادارے یا بعض افراد عمران خان کی پشت پر ہیں۔ ایک اور تاثر یہ ہے کہ بعض اداروں میں بعض افراد ان کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں تاثر غلط اور بے معنی نظر آتے ہیں۔

اس کی مثال یہ دیکھیں کہ جب پانامہ معاملے میں بات اقامہ تک پہنچ کرنواز حکومت ختم ہوئی تو وہ ایک جلوس کے ہمراہ جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے چلتے ہوئے پانچ روز میں لاہور پہنچے اور مختلف مقامات پر تقاریر میں کہتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔

اس طویل سفرکے بعد پھر انہوں نے طویل آرام کیا اور باقی سب کو معلوم ہے کہ آگے کیا ہوا۔۔ان کے برعکس عمران خان نے بیانیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

انہوں نے ایسا ماحول بنایا کہ ان کی ساڑھے تین سالہ مہنگائی کا دور اور ناقص گورننس، اندرون وبیرون ملک ناکام معاشی وسفارتی پالیسیوں کے نتائج عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہی ہوگئے۔ اور ہر جلسہ اور ہر تقریر میں حکومت سمیت سب کے لتے لیتے ہیں۔

حکومت والے عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں کے خلاف کرپشن کے الزامات تو گنواتے ہیں لیکن تاحال ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔

بات یہ ہے کہ ہمت نہ ہوتو سب ادارے آپ کے ساتھ ہوں پھر بھی نتیجہ صفر ہی ہوگا۔ دنیا بھی تب ساتھ دیتی ہےجب یقین محکم کے ساتھ عمل پیہم ہو۔ الزامات توسابق حکومت نے بہت لگائے۔ نتیجہ کیا نکلا؟