موجودہ حکومت اور چھوٹے صوبوں کی محرومیاں

May 20, 2022

موجودہ حکومت ملک کی تقریباً ساری جماعتوں پر مشتمل ہے،یہ بات کئی سیاسی حلقوں کو پسند نہیں آئی، اس بات پر مختلف حلقوں کی طرف سے اس حد تک تنقید ہوئی ہے کہ خود حکومت میں شامل کچھ پارٹیوں کے رہنما بھی یہ تاثر دے رہے ہیں مگر کسی نے اس بات پر غور کیا کہ یہ مرحلہ جو آیا ہے ،یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی کرشمے سے کم نہیں‘ میں یہ بات اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ ان جماعتوں میں ان چھوٹے صوبوں کی جماعتیں بھی شامل ہیں جو اب تک شدید محرومیوں کا شکار رہے ہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ جو شخص اس وقت ملک کا وزیر اعظم ہے یعنی میاں شہباز شریف انہوں نے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد چند دنوں کے اندر کافی مثبت اعلان کئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے خاص طور پر اعلان کئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ان مثبت اعلانات کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کی ان سے وابستہ توقعات میں اضافہ ہوا حالانکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھاشا ڈیم تعمیر کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کی وجہ سے سندھ کے عوام میں کافی تشویش پیدا ہوئی ہے مگر اس ایشو پر میں ایک الگ کالم لکھوں گا۔ گزشتہ کالم میںبلوچستان کی سوئی گیس کے ساتھ کئے جانے والے حشر اور اس وقت سندھ سے نکلنے والی گیس کابھی ذکر کیا تھا۔ اس سلسلے میں آج کالم میں سندھ کے ساتھ ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس ایشو پر میں سندھ کے ممتاز دانشور پروفیسر اعجاز قریشی کی سندھی میں لکھی گئی کتاب ’’کراچی جو کیس‘‘ (کراچی کا کیس) میں کئے گئے ایک دو اہم انکشافات کے حوالے سے یہ ایشو پیش کررہا ہوں۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل بنے اور وزیر اعظم کا عہدہ نوابزادہ لیاقت علی خان نے سنبھالا، پاکستان کی جو پہلی مرکزی کابینہ بنی اس میں سندھ سے کوئی وزیر نہیں لیا گیا حالانکہ پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرارداد سندھ اسمبلی سے منظور کی گئی اور سندھ مغربی پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ تھا‘ اس ناانصافی کے خلاف جہاں سندھ اسمبلی میں احتجاج کیا گیا وہاں سندھ میں نوجوانوں نے جلوس بھینکالے‘ اس کے بعد مرکزی کابینہ میں 30 دسمبر 1947 ء کو سندھ سے فقط ایک مرکزی وزیر عبدالستار پیرزادہ کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ علاوہ ازیں اس مرحلے پر مرکز کی بیورو کریسی میں بھی سندھ کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ کتاب میں مزید انکشاف کیا گیا کہ مرکز میں حکومت وجود میں آنے کے بعد وزیر خزانہ ملک غلام محمد، جن کا تعلق پنجاب سے تھا، نے سندھ سے قرض مانگا۔ ان کا موقف تھا کہ ہندوستان کی حکومت نے وعد ہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو 60 کروڑ روپے نقد دے گی چونکہ ہندوستان کی حکومت نے اس وقت یہ رقم پاکستان کو نہیں دی لہٰذا سندھ حکومت اپنے مالی وسائل پاکستان کے حوالے کرے تاکہ وہ ملک کی گاڑی کو چلا سکیں‘ اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے اپنی رقم بینکوں میں جمع کرائی ہے جو وہ نامناسب طریقے سے نہیں دے سکتے۔ انہوں نے وزیر خزانہ غلام محمد کو مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان سے یہ رقم طلب کریں جس پر یہ رقم واجب الادا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ شکایت وزیر اعظم لیاقت علی خان سے کی‘ انہوں نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اپنے پاس بلایا اور انتہائی جذباتی انداز میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سے اپیل کی کہ یہ آپ کی حکومت ہے، ہم آپ کے ہوتے ہوئے کیا بھوکے مریں گے؟ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے بھی کوئی رقم نہیں ہے۔ جواب میں کھوڑو نے وزیر اعظم کو کہا کہ ہم تو پہلے ہی بڑی رقم خرچ کرچکے ہیں‘ ہندوستان سے آنے والے اپنے بھائیوں پر ہم خرچ کررہے ہیں‘ ہم نے اپنے دفاتر آپ کے حوالے کئے ہیں اور جو کچھ ہوسکتا ہے وہ ہم کررہے ہیں‘ بعد میں وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے بتایا کہ وزیر اعظم کے اصرار پر وہ مرکزی حکومت کو 3 فیصد سود پر 30 کروڑ روپے کا قرض دینے پر رضا مند ہوگئے‘ بعد میں 1969 میں ایوب کھوڑو نے ایک اخباری بیان کے ذریعے بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد سندھ حکومت نے مرکزی حکومت کو 28 کروڑ روپے دیئے۔ انہوں نے اس مرحلے پر یہ بھی ا نکشاف کیا کہ ون یونٹ بننے کے بعد مغربی پاکستان کی حکومت نے بھی حکومت سندھ سے تقاضا کیا کہ صوبہ چلانے کے لیے ان کو بڑی رقم کی ضرورت ہے لہٰذا سندھ حکومت نے مغربی پاکستان کی حکومت کو بھی 33 کروڑ روپے دیئے‘ اس طرح مرکزی حکومت اور سابق مغربی پاکستان کی حکومت کو سندھ کی طرف سے دی گئی مجموعی رقم 61 کروڑ روپے بنتی ہے مگر آج تک اس 61 کروڑ روپے میں سے سندھ کو ایک روپیہ بھی نہیں لوٹایا گیا‘ یہ رقوم جو 1947 ء اور ون یونٹ کے دور میں دی گئیں، اب یہ رقم کتنی ہوگئی ہوگی؟ ضروری ہے کہ اس کا بھی حساب لگایا جائے۔ افسوس ہے کہ اب تک سندھ کی کسی بھی حکومت نے یہ رقم واپس کرنے کاکوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بہرحال اس وقت سندھ کی جو مالی صورتحال ہے اس سے موجودہ سندھ حکومت تو بخوبی باخبر ہوگی کیا مناسب نہیں کہ اس سلسلے میں ضروری حقائق جمع کرکے موجودہ آل پارٹیز حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ یہ رقم سندھ کو واپس کی جائے۔

امید ہے کہ اگر سندھ حکومت اس وقت یہ ایشو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھاتی ہے تو موجودہ مرکزی حکومت ضرور اس پر ہمدردانہ انداز میں غور کرے گی۔ اس مرحلے پر میں ایک اور ایشو کی طرف بھی موجودہ آل پارٹیز حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ ہندوستان اور پاکستان برطانیہ کی حکومت سے جاری کئے گئے INDIAN INDEPENDENCE ACT,1947 کے تحت وجود میں آئے تھے، اس ایکٹ کی ایک ہم شق یہ تھی کہ دونوں ملک آزاد ہونے کے بعد انتخابات کرائیں گے اور منتخب حکومت کا اجلاس بلاکر سب سے پہلے اپنے اپنے ملک کا آئین بنائیں گے۔ ہندوستان نے تو ایسے ہی کیا مگر کیا پاکستان نے ایسا کیا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)