ڈالر کی اُڑان جاری

May 21, 2022

ڈالرکی قدر میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے مہنگائی کے علاوہ ملک کی مجموعی معاشی صورتِ حال پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ قومی کرنسی کا مضبوط ہونا معاشی ترقی کا ایک اہم اشاریہ ہے جو گزشتہ چند برسوں میں غیرمعمولی طور پر گراوٹ کا شکار ہوئی ہے ۔ حالیہ سیاسی انتشار کے دنوں میں روپے کی قدر میں ایک بار ضرور اضافہ ہوا جب شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعظم حلف اٹھایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی تنائو ختم ہو چکا چنانچہ ڈالر اور اسٹاک ایکسچینج دونوں میں بہتری کے آثار نمایاں ہوئے مگر سیاسی افراتفری جاری رہی اور سابق وزیراعظم نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا توڈالر کی قدر میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوا۔ تاہم اس کی ایک وجہ وہ مافیاز بھی ہیں جنہوں نے ڈالر کی بڑھتی قیمت کے باعث انہیں مارکیٹ سے غائب کر دیا۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق امریکی ڈالر انٹربینک میں کاروبار کے دوران 200 روپے کی پریشان کن حد بھی عبور کر گیا ہے جو بدھ کے روز 199 روپے پر بند ہوا تھا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدرحکومت کے علاوہ ماہرین کیلئے بھی پریشان کن ہے، اور کئی معاشی ماہرین نے اسے پاکستانی معیشت کیلئے سیاہ دن سے تعبیر کیا ہے۔ خیال رہے کہ حکومت نے حال ہی میں زرمبادلہ کے ذخائر کو درآمدات پر خرچ کرنے سے روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے ہیں جس کے بعد حکومت پرامید ہے کہ روپے کی گراوٹ کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔حالیہ ہفتوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پہلے ہی ملک کے تیل کے درآمدی بلوں کو دگنا کر دیا ہے جس کے باعث وطنِ عزیز کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ہیں۔ کئی اہم رہنما معیشت کی بحالی کیلئے متفقہ میثاقِ معیشت پر زور دے چکے ہیں تاہم اپوزیشن کی جانب سے اس پر اب تک کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998