سیاسی مداخلت کا انجام

May 24, 2022

آج پاکستان معاشی، سیاسی اور قومی بحران کی جس جان لیوا کیفیت میں مبتلا ہے اسی کیفیت سے بچنے کے لیے ملک کی جمہوری اور عوامی پارٹیوں، روشن خیال دانشوروں اور شاعروں ادیبوں نے ہمیشہ پاکستان میں جمہوری ادارے مضبوط کرنے پر زور دیا تھا اور اس سلسلے میں نہ صرف ریاستی تشدد کو برداشت کیا بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے بھی دیے۔ اس کا آغاز یوں ہوا کہ جنرل ایوب خان کے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف بنتے ہی اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت شروع کردی جسکی بابائے قوم نے سختی سے ممانعت کی تھی ان لوگوں میں کمانڈر انچیف کے ساتھ سیکرٹری دفاع جنرل اسکند ر مرزا نمایاں تھے۔ جنرل ایوب خان نے ہر طرح کے اخلاقی اور آئینی انحراف کا سلسلہ شروع کردیااور کمانڈر انچیف کے عہدے میں توسیع کے ساتھ ساتھ وہ ملک کا وزیرِ دفاع بھی بن بیٹھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ جمہوریت کے فقدان کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ یہ تھا فوج کی سیاست میں مداخلت کا پہلا انجام اور پیغام کہ اگر بقیہ پاکستان کو بچانا ہے تو ملک میں حقیقی سیاسی لیڈر شپ کومضبوط ہونے دیں جو صرف ایک آزاد، شفاف اور منصفانہ الیکشن کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جبکہ سیاست دانوں کا امیج داغدار بنا کر پیش کرنے کی بجائے انہیں قوم کا حقیقی نمائندہ سمجھا جائے۔ سیاست کی باریکیاں صرف سیاستدان ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کیونکہ یہ ملک بھی ایک شفاف الیکشن کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا تھا اور اس کا بانی بھی ایک سیاستدان تھا مگر اس بھیانک انجام اور وارننگ بھرے پیغام کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کرنے اور انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے غداری اور سیکورٹی تھریٹ جیسے الزام لگانے بند نہ کئے اور صرف چھ سالہ جمہوری حکومت کے بعد پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اپنی مرضی کی لیڈر شپ کو اقتدار پر مسلط کرنے کے لیے حقیقی جمہوری جماعتوں کو کچلنے کا سلسلہ پھر سے شروع کردیا۔1947میں آزاد ہونے والا ملک محض اس لیے ایک قوم نہ بن سکا کہ طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرنے والے ڈکٹیٹر وں نے ملک گیر پارٹیوں کو توڑنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ پہلے مسلم لیگ کو کئی دھڑوں میں تقسیم کیا اور پھر پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کی کوششیں کیں۔اسی طرح ملک گیر رہنمائوں کو جن میں ذوالفقار علی بھٹو نمایاں ہیں، جسمانی طور پر ختم کردیا گیا۔ اس سے قومی وحدت مزید کمزور ہوئی کیونکہ ملک گیر سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں کسی بھی قوم کی وحدت کی نشانی ہوتی ہیں۔ انہیں کمزور کرنے کا مطلب قومی وحدت کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ اگر ایک پارٹی پورے ملک میں اپنا موثر وجود رکھتی ہو تووہ عوام کو قریب لانے کا باعث بنتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے خاتمے کے بعد کوئی ایسی سیاسی جماعت باقی نہیں تھی جو ملک کے دونوں حِصّوں میں مقبول ہوتی۔ عوامی لیگ کا مغربی پاکستان اور پیپلز پارٹی کا مشرقی پاکستان میں کوئی وجود نہ تھا۔

پاکستان کی پوری تاریخ کے دوران ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اپنے بت تراشتی رہی اور دوسری طرف وہی بت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی علامت بنتے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف اور اب عمران خان۔ اس پورے عمل کے دوران ملک کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ کمزور اسٹیبلشمنٹ ہو گئی ہے۔ اور اس کی کمزوری بذاتِ خود ملک کے استحکام اور سا لمیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ عمران خان کو جس طرح کھلے عام اسٹیبلشمنٹ نے بے انتہا سپورٹ کیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ اسے 10سال تک اقتدار میں رکھنے کا وعدہ کیا گیا۔ جسے اقتدار اپنی صلاحیت کی بجائے کسی ڈیل کے تحت ملا ہو۔ وہ اس وقت سے پہلے اقتدار چھوڑنا وعدہ خلافی سمجھتا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے عمرانی تجربے نے معیشت کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن اسکی کئی سالوں تک جو امیج بلڈنگ کی گئی تھی اسکی وجہ سے وہ اقتدار سے باہر رہنے پر تیار ہی نہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ سمیت پورا پاکستان ایک بند گلی میں پھنسا ہوا ہے جس سے باہر نکلنے کا راستہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا اور یہ سب سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔