انسان کا رحم

June 29, 2022

اس دنیا کے جس انسان کی زندگی بھی کھول کر دیکھی جائے، وہ تکلیفوں اور حسرتوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔ جب موت آتی ہے تو دنیا کا بڑے سے بڑا سائنسدان اتنی ہی بیچارگی سے مرتا ہے ، جیسے کوئی چوہا۔ اس کے باوجود انسان چونکہ کرّہ ارض کی دوسری تمام اسپیشیز پہ غالب ہے اور خدا حجاب میں ہے ؛لہٰذا آدمی کے بنائے ہوئے قوانین اس دنیا پہ نافذ ہیں ۔

یہ انسان پہلے ہر چیز کا بیڑہ غرق کرتا ہے ۔پھر اسے ٹھیک کرنے کے قوانین بناتا ہے۔ پہلے آدمی نے پلاسٹک ایجاد کیا ، جو سودا سلف اٹھانے میں مددگار تھا ۔ خشکی سے لے کر سمندروں تک ہر شے پلاسٹک بیگز سے اٹ گئی ۔آدمی اب ایسی ایجادات میں مصروف ہے ، جو پلاسٹک نگل سکیں ۔

آج بڑے ممالک آپس میں معاہدے کر رہے ہیں کہ اب کوئی فاسل فیول نہیں جلائے گا۔ اس اثنا میں مغربی انٹارکٹکا سمیت دنیا بھر میں برف کے ذخائر پگھلنے لگے ۔ سمندر بلند ہونے اور ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ آدمی قانون بناتاہے کہ بیوی کو طلاق کی صورت میں شوہر کی آدھی جائیداد ملے گی۔ ساتھ ہی قانون بنا ڈالتا ہے کہ شادی کے بغیر اکٹھے رہنے اور بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔

ایک مضحکہ خیز صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے ، جب انسان اپنی طرف سے جانوروں پہ رحم کرنے کی کوشش کرتاہے ۔کسی مرتے ہوئے یا بھوکے جانور پہ رحم کھانا کتنی اچھی بات ہے ۔ خرابی مگر اس وقت پیدا ہوتی ہے ، جب وہ ان کی ساری زندگی مستقل طور پر بہتر بلکہ پرفیکٹ بنانے کی کوشش کرتاہے۔ اس کوشش میں اس کی اپنی زندگی بھی خراب ہوتی ہے اوربے زبانوں کی بھی۔

گزشتہ دنوں ایک شدید زخمی بلی سے واسطہ پڑا جو سخت بیمار تھی ۔ جب وہ بہتر ہو گئی تو معالج نے کہا کہ آپریٹ کروا کے اسے بانجھ کروا لیجیے ۔ حیرت سے میں نے پوچھا : کیوں؟کہنے لگے ، اس کے بچوں کا خیال کون رکھے گا؟ یہی مشورہ مجھے ان خدا ترس لوگوں نے دیا ، جو بھوک اور زخموں سے مرتی ہوئی بلیوں کو ریسکیوکرتے ہیں ۔ ایسے ایسے رحم دل لوگ بھی ہیں، تنِ تنہا جنہوں نے سینکڑوں بلیوں کی جان بچائی اور پھر ساری زندگی انہیں پالا۔ جو سب سے بڑا مسئلہ انہیں درپیش ہوا، وہ ہر چند ماہ بعد تین چار نئے بلونگڑوں کی آمد تھی ۔ ظاہر ہے کہ چند ماہ میں اگر آپ کی بلیوں کی تعداد پچاس سے بڑھ کر یکا یک دو سو ہو جائے تو کون ان کی ضروریات پوری کرے گا۔

اس کا ایک ہی حل تھا۔ انہیں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے؛چنانچہ ریسکیو کرنے والے انہیں آپریٹ کروانے لگے ۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ آپ نے ایک جانور کو ریسکیو کیا، اس کی جان بچائی ، اپنی رحم دلی کی وجہ سے زندگی بھر اسے خوراک فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ۔ یہ اپنی طرف سے ان کی رحم دلی تھی ۔ اگر اس جانور کی زبان ہوتی تو وہ آپ سے کہتا کہ اپنی رحم دلی رکھیں اپنے پاس اور مجھے اجازت دیں ۔

میں سوچنے لگا۔ ایک وہ ذات ہے ، جس نے پندرہ بیس کروڑ سال تک اس زمین پہ کروڑوں ڈائنا سار پالے ۔ آج اس زمین پہ انسان کے علاوہ ستاسی لاکھ قسم کی مخلوقات آباد ہیں ، جو مسلسل اولاد پیدا کر رہی ہیں ۔انسان ان میں سے فقط ایک ہے۔ ڈائنا سار سمیت وہ پانچ ارب قسم کی مخلوقات ان کے علاوہ ہیں، جو ناپید ہو گئیں ۔ ہومو سیپینز کی تعداد آج آٹھ ارب کے لگ بھگ ہے ۔ زمین پہ مگر ہومو اریکٹس سمیت درجنوں دو ٹانگوں والے زندگی گزارتے رہے ۔ انسان مگر ایثار کرے تو کتنا ؟ آخر وہ انسان ہے ۔ آپ کتنی بلیوں کے آپریشن کروا لیں گے ؟ پھر آپ آوارہ کتوں کے بھی آپریشن کروا لیں ، جو ایک وقت میں آٹھ آٹھ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ ان بچوں کو پالنے والا کون ہے ؟

ایک خدا کی ذات، جس نے زمین پہ مٹی بچھاکر پودے اگائے۔ ان پودوں سے تمام جانور اپنی بھوک مٹاتے ہیں ۔ پھر شیر، بھیڑیے اور وہ گوشت خور ہیں ، جو سبزی خوروں کو کھاتے ہیں۔ رب نے انہیں بھی تو پالنا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو بھی پیدا ہوا، اسے ایک دن بیماری اور موت کا سامنا کرنا ہے ۔ یہ ایسی خوفناک تکلیف ہے ، جس سے کوئی سانس لینے والا مبرا نہیں ۔ خدا مگر یہ کہتاہے کہ زمین پہ کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو ۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ ایک مرتے ہوئے ، بھوکے اورزخمی جانور کی جان بچائیں۔جب وہ سنبھل جائے تو اسے واپس چھوڑ آئیں ۔ وہ اپنا رزق خود ڈھونڈے گا ، بچے پیدا کرے گا ، انہیں دودھ پلائے گا اور اپنی ایک سلطنت (Territory)بنانے کی کوشش کرے گا۔یہ اس کی نارمل زندگی ہے ۔رحم کھا کر آپ جو زندگی اسے بخش رہے ہیں ، وہ ایب نارمل زندگی ہے ۔ بچے کو دودھ پلاتے ہوئے میملز کو انتہائی مسرت نصیب ہوتی ہے ۔ آپ کیسے انہیں اس سے محروم کر سکتے ہیں ؟

ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایک دن وہ بھی آیا تھا، جب آسمان سے ایک دس کلومیٹر قطر کا پہاڑ میکسیکو پہ آگرا تھا اور ڈائنا سار سمیت 70فیصد جانوراس حادثے میں ختم ہو گئے تھے ۔کب ایسا ہی کو ئی حادثہ ہمیں آلے ۔ انسان کو انسان ہی رہنا چاہئے ۔ خدا بننے کی کوشش کرے گا تو خود بھی تکلیف اٹھائے گا اور مخلوق کو بھی تکلیف سے گزارے گا۔