ممنوعہ فنڈنگ فیصلہ: شیشے کے گھر سے پتھراؤ

August 13, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

پی ٹی آئی کے خلاف ایک سابق کارکن کی استدعا پر الیکشن کمیشن میں زیرِ التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے متذکرہ تفصیلی پس وپیش منظر اور حکومتی و پی ڈی ایم کے غیر معمولی مکمل پروپیگنڈہ اسٹائل ردِعمل کے پیش منظر نے، جاری سیاسی و معاشی گمبھیر بحران کے حوالے سے نئے سوال پیدا کر دیے ہیں ۔ الیکشن کمیشن یقیناً ایک آئینی اور ملک میں سیاسی استحکام اور جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کی ذمے داری ادا کرنے کے حوالے سے بہت اہم اور بنیادی ادارہ ہے ۔اپنی اسی حساسیت کے باوجود یہ عدل وانصاف کے ملکی نظام اور سیٹ اَپ کا حصہ تو نہیں یعنی یہ کوئی اور کسی بھی سطح کی عدالت تو نہیں لیکن پی ٹی آئی کے خلاف مالی جماعتی نظم وضبط کے حوالے سے انتخابی عذرداری میں بیرونِ ملک سے جماعت کو آنے والی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست دہندہ نے جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی، الیکشن کمیشن نے اس کی تصدیق کی ہے کہ یہ اعتراضات درست ہیں۔ زیر بحث فیصلے پر عوامی اعتبار کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ خلافِ انتخابی ضابطہ و سیاسی عمل جو کچھ ہوا وہ مکمل غلط یا درست ہے یا جزواً درست بھی ہے تو کیا الیکشن کمیشن اپنے قوانین و ضابطے کی اس نوعیت خصوصاً انتخابات کے آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد کے حوالے سے موصول ہونے والی جملہ درخواستوں اور دیدہ دلیرانہ اور سرعام ہائی فری کوئینسی پر خلاف ورزیوں پر ایسے ہی فیصلے ،آبزرویشن یاازخود نوٹس لیتا ہے؟ اس کا اپنا مجموعی رویہ اور سکت اس حوالے سے کیسی اور کتنی ہے ؟ جواب ہے کہ سیاسی و جمہوری عمل اور اس کے ملکی اقتصادی سرگرمیوں پرپڑنے والے جملہ اثرات کے الیکشن کمیشن کی پیشہ ورانہ سکت اور غیر جانبداری دونوں ہمارے سیاسی نظام کے بڑے روگ کی شکل میں مکمل واضح اور ہمارے نظامِ سیاست و تشکیلِ حکومت کی بڑی خامی و خلا کے طور پر سیاسی ابلاغ میں تسلسل سے زیر بحث رہتا ہے، اس پس منظر میں پی ٹی آئی کی استدعا کو وزن دیتے ہوئے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی یہ رہنمائی یا حکم کہ اس ضمن میں پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے جو خلافِ ضابطہ (الیکشن کمیشن کے) اقدامات کئے ہیں، کمیشن پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا بھی جائزہ لے اور کارروائی کرے ۔ الیکشن کمیشن کی اس پرخاموشی نے عوام میں اس کے اعتبار کو پہلے ہی کم کر دیا تھا اور اب جو اس (پی ٹی آئی) کے خلاف جواب طلبی الیکشن کمیشن طرز (یا توجہ طلب نوٹس ) کو وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم جس طرح ملکی نظامِ عدل کے حتمی فیصلے کے طورپر قرار دے کر پارٹی پر پابندی اور اس کے چیئرمین کو انتخاب کے لئے نااہل دینے کا زوردار پروپیگنڈہ کر رہی ہے ، عوام کی اس پر کڑی نظر ہے ،وہ عوام جو پہلے ہی ملکی نظامِ انتخاب و سیاست سے مکمل مایوس ہی نہیں بلکہ اب سیخ پا بھی ہو گئے ہیں اور آنے والے انتخاب میں اپنی لی گئی اس پوزیشن کا حتمی ثبوت دینے کے لئے پرعزم ہیں ۔اس کی تصدیق پنجاب میں حالیہ بڑے ضمنی انتخاب کے نتائج سے ہوئی، یہ معاملہ اب یہاں ختم نہیں ہو گا کہ حکومتی پروپیگنڈے یا کسی نادیدہ شعبدے سے پی ڈی ایم اپنا ہدف حاصل کرے، اس کے سیاسی ،قانونی اور سب سے بڑھ کر اخلاقی پہلو اپنا رنگ دکھائیں گے، بھرپور عقلی جواز کا حامل یہ سوال اُٹھ گیا اور کسی ان ہونے فیصلے پر بڑی شدت سے اٹھے گا کہ اگر پی ٹی آئی کو بیرون ممالک سے دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی جانب سے مکمل پاکستانی اور ینٹڈ فنڈنگ میں کوئی کوتاہی یابے ضابطگی ہوئی ہے تو اس پر ملک کی (اب ثابت شدہ) سب سے بڑ ی اور مقبول وفاقی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ یا اس کی خامیوں سے پر حقائق کی بنیاد پر اس کے تیزی سے مقبول ہوتے چیئرمین کو انتخابی عمل سے نکالا جا سکتا ہے ؟ اس کھلے عام ملک و قوم مخالف غیر جمہوری اور مار دھاڑ ارادے کی تکمیل پر حکومت اور اس کی سیاسی بنیاد پی ڈی ایم جس انداز کی مہم جوئی کا ارتکاب کر رہی ہے، وہ حالات کی نزاکت اور حساسیت کو مجرمانہ حد تک نظرانداز کرکے پی ٹی آئی کے چیئرمین کو ملکی سیاست سے نکالنے کےلئے ثابت ہوئی۔ مقبول ترین رائے عامہ کے خلاف شدید خسارے کی مزاحمت کے مترادف ہے ۔اتنا اندھے مت بنیں جتنے بھی نااہل اور کم نااہل ہیں، ہمارے ارباب سیاست کو اتنا تو معلوم ہے ہی کہ ملکی سیاسی تاریخ میں اس کے کیا تباہ کن نتائج نکلے ۔انتخابی قوانین اور ضابطوں کے حوالوں سے ہماری تمام بڑی جماعتوں کی ایک سےبڑھ کر ایک بے قاعدگیوں کاریکارڈ اتنا زیادہ ہے کہ کمیشن کا اعتبار اور پیشہ ورانہ مہارت پہلے ہی اس میں غرق ہے ۔ساری شفافیت ایک شخصیت کی کسی لاعلمی سے اور سیاسی قائدین کے مجموعی رویے کو ترک کرکے عمران خان کی ذات سے کشید کرکے اصلاح کا آغاز اور مطلوب انصاف فراہم کرنا ،پاکستان میں سیاسی و جمہوری عمل کے ارتقا کو طویل عرصے کے لئے ختم کر سکتا ہے۔پارٹیاں جس جس دودھ سے دھلی ہیں اور جتنی دھلی ہیں پارٹیوں کے کارکنوں سمیت عوام ساری حقیقت جانتے ہیں، یہ بھی کہ پی ٹی آئی تو اس حساب میں روایتی ن لیگ اور پی پی کے مقابل سرخرو ہی ہے ۔سو حکومت اور پی ڈی ایم ہوش کے ناخن لے ،معاملے کو اسلام آباد اور سپریم کورٹ میں آنے کا انتظار کرے ۔درخواستوں کا آگے پیچھے آنے کا جواز لغو ہے، ہدایت دینے والی عدالتیں یہ نہیں جانتیں ؟ گمبھیر جاری معاشی بحران جس میں سیاسی کھلواڑ سے مسلسل شدت آ رہی ہے، حکومت اس کو منیج نہیں کر سکتی تو اس کو اتنا دانستہ بڑھانے کی بھی مرتکب نہ ہو۔ریت سے کسی صورت مچھلی نہیں نکالی جا سکے گی، شیشے کے گھر سے اتنا پتھرائو عقل سے بعید، شیشہ بھی ایسا کہ امکان واضح ہیں کہ جواب میں منی لانڈرنگ کے زندہ و زیر سماعت کیسز پر صاحبانِ اقتدار و اختیار کے خلاف اتنی ہی جلدی اور اسی انداز میں فیصلے کرنے کا عوامی مطالبہ نصف شدت سے بھی اٹھ گیا تو شیشے کا گھر اس ایک پتھر سے ڈھیر ہو جائے گا ۔وقت کی ضرورت ہے کہ سخت متنازعہ حکومت اور تیرہ جماعتی اتحاد ،ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرے اور قانونی جدوجہد اور کشمکش کا مقابلہ سیاسی کھلواڑ سے نہ کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)