پون صدی کا پیار

August 14, 2022

محبت سدا بہار رُت کا نام ہے، اس کے جذبات و احساسات پھولوں کی مانند مہکتے رہتے ہیں۔ یہ محبت ہمیشہ جوان رہتی ہے۔ ظاہری حالات کی بچھائی کوئی خزاں اس کے رنگ پھیکے نہیں کر سکتی کہ اس پھول کی سیرابی کے چشمے باطن میں بہتے ہیں۔ اس کی شادابی، تروتازگی اور طاقت براہِ راست دل کی توانا امنگوں کے تاروں سے وابستہ ہے۔ سانس کی لے پر رقص کرنے والا دل جبر کے ضابطوں کو نہیں مانتا، ہمیشہ اپنی کرتا ہے۔ دل محبتوں کا وہ مسکن ہے جس کی دھڑکنیں محبت کے ساز ہیں۔ اِس ساز کو سماعتوں میں بسانے والے ہمیشہ امن اور پیار کا پیغام فضا میں اُچھالتے رہتے ہیں۔

انسان زندگی میں ایک نہیں بہت سی محبتیں کرتا ہے۔ مرد عورت کے رومان کے علاوہ مختلف رشتوں، نظریات اور تصورات سے محبت اس کی ذات کا حصہ ہے مگر ان سب میں وطن کی محبت سب سے اعلیٰ، ارفع اور نرالی ہے۔ صرف یہی وہ محبت ہے جس کے لئے وہ اپنی جان دینے کو اعزاز سمجھتا ہے۔ ہر بھرتی ہونے والے فوج کے سپاہی کو علم ہوتا ہے کہ اس نوکری میں اسے کسی بھی لمحے دشمن کی سمت سے آنے والی بے رحم گولی کا سامنا ہو سکتا ہے جو اس کے تنفس کی ڈور منقطع کرسکتی ہے مگر اس کے باوجود وہ اس ملازمت کو اپنے لئے فخر بنا لیتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ وطن کے تحفظ کا پختہ احساس جڑا ہوا ہے۔ وہ ایک قلیل آمدنی میں مشکل ترین فرائض سرانجام دیتا ہے۔ جہاں آکسیجن بھی میسر نہیں ہوتی وہاں جانے کے حکم کو بھی رَد نہیں کرتا بلکہ چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ وطن سے محبت ہر انسان کی سرشت میں ہوتی ہے کیونکہ وطن اس کی پہچان اور آن بان ہے۔ پاکستان ایسی خوش نصیب سرزمین ہے جس کا ہر فرد سپاہی والا جذبہ رکھتا ہے۔ 65ء کی جنگ میں اس کا مظاہرہ بھی ہو چکا۔ وطن ہماری تمام محبتوں کا محور و مرکز ہے۔ اس کی خاطر ہم دیگر سب محبتوں کو قربان کر سکتے ہیں مگر اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

سو ہماری محبت پون صدی کی ہو گئی۔ پون صدی کی محبت کی داستان کے تمام مناظر کا تجزیہ کریں تو دماغ چکرا جاتا ہے اس لئے کہ کئی اہم معاملات میں کچھ کرداروں کی ظاہری اور باطنی کیفیات بالکل متضاد دکھائی دیتی ہیں اور اس بارے میں علم بھی کافی دیر بعد ہوتا ہے۔

ایک سوال جس کا جواب تلاش کرنا بے حد ضروری ہے کہ آخر ہماری محبت، عشق کے درجے پر فائز ہونے کی بجائے تشکیک کا شکار کیسے ہو گئی؟ہم نے جس محبت کے زبانی قول و قرار کئے، قسمیں کھائیں، نصف صدی تک عملی طور پر اس کے لئے قربانیاں دیں اس میں دراڑیں کیوں پڑ گئیں، شاید زمانے کے جدید طریقوں نے ساری اصلیت کھول دی۔ جگہ جگہ نصب خفیہ کیمروں نے ہماری حرکات و سکنات کا پورا ریکارڈ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ ہم پر کھلا کہ وِلن ایک دو بندے یا گروہ نہیں تھا، ہم سب بھی شریک کار تھے۔ ہماری خاموشی کو ہماری رضا مندی سمجھ کر معاملات بگاڑنے والے بے خوف و خطر آگے بڑھتے رہے اور حالات بگڑتے رہے۔ مختلف بہروپئے ہمیں عقائد کے نام پر بیوقوف بناتے رہے اور ہم خوشی خوشی ان کی پیروی کرتے رہے۔ نہ سوچنے کی زحمت گوارا کی نہ سوال کرنے کی اور نہ حالات کے تقابلی جائزے والا صفحہ کھولا۔

کبھی وطن پر کڑے معاشی وقت کی دہائی نے خراج طلب کیا کبھی سرحدوں پر کھڑے علامتی دشمن کے ڈراوے کے نام پر قربانی مانگی گئی۔ عوام قربان ہوتے رہے اور ایک مخصوص لاپروا طبقہ خوشحال ہوتا رہا۔ جو اصل وِلن ہے جو کئی شعبوں کی بنیادوں میں اتنا زہر بھر چکا ہے کہ کڑواہٹ اب در و دیوار تک آ گئی ہے۔

یہ وطن کسی ایک ادارے یا سیاسی جماعت کی ذمہ داری نہیں۔ اسی طرح اس کی خوشحالی اور بدتری کے ذمہ دار بھی چند ادارے یا جماعتیں نہیں۔ اچھے برے ہر عمل میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ہمیں اس آزادی کا تحفظ کرنا ہے اور خود کو ایک باشعور قوم ثابت کرنا ہے۔ کوئی بھی محبت عزت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ہمیں خود کو بھی عزت دینی ہے اور اپنے جھنڈے کو بھی۔ آئیے آئین، قانون اور ضابطے کی رہگزر پر سفرکا آغاز کریں۔ اپنے ہر عمل کا تنقیدی جائزہ لیں، پہلے اپنا محاسبہ کریں۔ اخلاقی اور انسانی قدروں کی پیروی ذات کا حصہ بنائیں۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے نہ روزگار کی۔ ہمیں اپنے ہنر کو آزمانا ہے صرف اسی صورت میں ہم معاشی خود مختاری حاصل کر کے صحیح معنوں میں آزاد ہو سکتے ہیں۔ خدا کرے ہماری پون صدی کی محبت قائم دائم رہے۔ پاکستان زندہ باد۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)