حب الوطنی کا پارہ آسمان کو چھو رہا ہے

August 14, 2022

آج صبح جب بیدار ہوا تو حسبِ عادت تمام اخبارات پر نظر دوڑائی، شہ سرخیاں پڑھیں، جید لکھاریوں کےکالموں کا جائزہ لیا، سیانے لوگوں کے تبصرے پڑھے اور پھر اِس نتیجے پر پہنچا کہ ملکِ خداداد پاکستان میں اِس وقت حب الوطنی کا پارہ آسمان کو چھو رہا ہے۔ یہ جان کر روح کو بہت شانتی ملی۔ ویسےعموماً یہ شانتی نیک لوگوں کو فوت ہونے کے بعد ملتی ہے۔ مولانا طارق جمیل کے انداز میں کہوں تو یہ وہ شانتی ہے جو جنت میں ملےگی اور جس کا قد ایک سو تیس فٹ ہوگا، مولانا نے باقی ’تفصیل‘ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا سو وہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن ہم رِندوں کا جنت میں کیا کام، ہمارے لئے تو اگر پاکستان میں دو چار کام سیدھے ہو جائیں تو وہی جنت بن جائے۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ اب شاید دو چار کام سیدھے کرنے سے بھی بات نہیں بنے گی۔ اِس دنیاوی جنت کا ہم نے وہ حال کر چھوڑا ہے کہ کوئی کرشمہ بھی شاید اسے ہماری زندگیوں میں ٹھیک نہ کرسکے۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ چودہ اگست کو اِس قسم کی مایوسی کی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں حالانکہ آج آزادی کی75ویں سالگرہ ہے، سالگرہ والے دن تو بندہ دشمن کو بھی نیک تمناؤں کا پیغام بھجوا دیتا ہے، پاکستان تو پھر ہمارا ملک ہے۔ مگر میں کیا کروں، چودہ اگست کا دن میرے اندر ایک عجیب قسم کی مایوسی پیدا کردیتا ہے، یہ ویسی ہی مایوسی ہے جیسی زندگی میں کسی ناکام شخص کو اپنی 75ویں سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ ایک مدت تک ہم خود کو یہ کہہ کر بہلاتے رہے کہ قوموں کی زندگیوں میں پچاس ساٹھ برس کوئی اہمیت نہیں رکھتے، یہ استدلال کسی حد تک درست تھا مگر اکیسویں صدی میں اِس کا سہارا لینا بہرحال حماقت ہی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ قومیں چند برسوں میں تشکیل نہیں پاتیں مگر آج کل دنیا میں ترقی کا ہر ماڈل دستیاب ہے، ہمیں صرف اُس ماڈل کو نقل کرکے اپنے ملک میں لاگو کرنا تھا مگر ہم یہ کام نہ کر سکے۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے اپنے ہاں جمہوریت کا ٹوٹا پھوٹا ماڈل لاگو کیا اور ہم سے کہیں آگے نکل گیا۔ ہمارا حال تو اُن سردار جی جیسا ہے جنہوں نے شراب نہ پینےکا عہد کر رکھا تھا مگر ایک روز جب برداشت بالکل جواب دے گئی تو انہوں نےبوتل میز پر رکھی اور جیب سے سکہ نکال کر خود سے کہا کہ اگر ’ہیڈ ‘ آئے گا تو پیوں گا ’ٹیل ‘ آئے گا تو نہیں پیوں گا۔ بالآخر چھبیس مرتبہ سکہ اچھالنے کے بعد ’ہیڈ‘ آیا۔ ہم نے بھی اِس ملک کے ساتھ یہی کیا ہے، ہم اُس وقت تک سکہ اچھالتے رہتے ہیں جب تک اپنی مرضی کا نتیجہ نہ نکل آئے اور پھر وہ نتیجہ عوام پر مسلط کرکے امید کرتے ہیں کہ ملک ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا، ایسا تاریخ میں کبھی ہوا ہےاور نہ آئندہ ہوگا۔

بات حب الوطنی کی ہورہی تھی۔ ہماری حب الوطنی اب صرف چودہ اگست کو مال روڈ پر بغیر سائلنسر کے موٹر سائیکل چلانے اور یوم آزادی پر ایک ٹویٹ کرنے تک رہ گئی ہے۔ چلئے اِس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر یہ باتیں ’قانون عدم تضاد‘ یعنی The Law of Non Contradiction کے مطابق ہوں۔ یہ قانون بظاہر بے حد سادہ مگر حقیقت میں کافی باریک ہے۔اِس قانون کا مطلب یہ ہے کہ دو متضاد باتیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں یعنی کسی بیان کو ایک ہی سانس میں درست اور غلط نہیں قرار دیا جا سکتا۔ گویا اگر ہم تسلیم کرلیں کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے تو اسی لمحے اس کی تردید میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں محبت نہیں ہے۔ اِس قانون ِعدم تضاد کی خلاف ورزی کا مطلب حقیقت کا انکار کرنا ہوگا، اسیلئے، بقول ارسطو، علم و دانش کے حصول کے لئے اِس قانون پر عمل کرنا ضروری ہے۔ لیکن ہم چونکہ پاکستانی ہیں اِس لئے کسی قانون کی پروا نہیں کرتے۔ ہم نے آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہےتو یہ قانون عدم تضاد بھلا کیا چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں یوم آزادی کے موقع پر بلند بانگ دعوے سنتا ہوں، اخبارات میں بیانات پڑھتا ہوں اور جذبہ حب الوطنی سے بھرپور ویڈیوز دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر پوری قوم ہی محب وطن ہے تو پھر خرابی کہاں ہے اور پورے ملک پر نحوست کیوں طار ی ہے؟ اِس سوال کا جواب قانون عدم تضاد میں پوشیدہ ہے۔ جس لمحے ہم حب الوطنی کا دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں اسی لمحے ہم ٹیکس بھی چوری کر رہے ہوتے ہیں، ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہوتے ہیں، کسی اقلیتی گروہ کو تضحیک کا نشانہ بھی بنا رہے ہوتے ہیں، کسی مزدور کی اُجرت بھی دبا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور کسی سڑک کو روک کر وہاں تجاوزات کا انبار بھی ہم نے لگا رکھا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے میں جب ہم چودہ اگست کو اپنے گھر پر جھنڈا لہراتے ہیں یا یوم آزادی پر سبز اور سفید کپڑے پہن کر نکلتے ہیں تو وہ حب الوطنی کا محض کھوکھلا اظہار ہوتا ہے۔ حب الوطنی کا اصل اظہار آئین اور قانون کی پاسداری ہے، آپ اپنی قمیض پر قومی پرچم لگائیں، بہت اچھی بات ہے، لیکن اگر آپ تاجر ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے، مذہبی عالم ہیں اورمعاشرے میں منافرت پھیلاتے ہیں،ڈاکٹر ہیں اور مریضوں کو سفاکی سے ڈیل کرتے ہیں، تو پھر اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نےیوم آزادی کیسے منایا؟آپ چاہے زار و قطار روتے ہوئے ملکی سلامتی اور خوشحالی کی دعائیں مانگیں،یہ قبول نہیں ہوں گی کیونکہ دو متضاد رویے بیک وقت درست نہیں قرار دیے جا سکتے۔

میں نے تو تہیہ کیا تھا کہ آج طعنہ زنی سے کام لینے کی بجائے ہلکی پھلکی گفتگو کروں گا کہ آج پاکستان کی سالگرہ ہے مگر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میری روح کو شانتی نہیں ملی۔میں قیامت کا انتظار نہیں کرسکتا ،لہٰذاکیا ہی اچھا ہو اگر مجھے دنیا میں ہی شانتی مل جائے! ر ہی بات آخرت کی تو میں مولانا طارق جمیل سےدرخواست کروں گا کہ مجھے قیامت کے دن’این آر او‘ دلوا دیں۔