کتنے لبریز جام

August 15, 2022

کبھی آپ انتہائی امیر اور انتہائی غریب لوگوں سے مل کر زندگی میں ان کی خواہشات کے بارے میں پوچھیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر شخص کی آنکھ میں ایک خواب ہے، جس نے اربوں اکٹھے کر لئے ، اصولاً تو اسے مکمل طور پر پرسکون ہوجانا چاہئے ۔ ایک بار میں نے ایک چارٹرڈ اکائونٹینٹ سے کہا کہ وہ خوش قسمت ہے ۔ ٹھنڈی سانس لے کر بولا: اپنا کاروبار اپنا ہی ہوتا ہے ۔ ایک دوست کے ماموں سی ایس ایس کے ذریعے افسر شاہی کا حصہ بن گئے ۔ ہر آسائش میسر تھی ۔ آدھی سروس گزر چکی تو اچانک استعفیٰ دیا اور اپنا کاروبار شروع کر دیا ۔ اس میں بھی کامیاب رہے ۔

لوگ جب کاروبار میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر سیاست میں حصہ لیتے ہیں ۔ ایم این اے ، ایم پی اے بننا ان کا خواب ہوتا ہے لیکن اسمبلی کی زینت بننے والے کیا ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں ؟ بالکل نہیں ۔ وہ تو اب وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں ۔جو وزیرِ اعظم بن جائے اور بنتا چلا جائے ،وہ طیب اردوان کی طرح مطلق العنان حکمران بننا چاہتا ہے ۔

انسان کو Ambitiousتخلیق کیا گیا ہے۔ لاشعوری طور پر‘وہ ہمیشہ‘ مسلسل اور متواتر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ گائوں والا شہر کی کسی صاف ستھری ہائوسنگ سوسائٹی میں منتقل ہونا چاہتا ہے ۔ شہر والاڈربے سے نکل کر بڑے سے زرعی فارم ہائوس کا خواب دیکھتا ہے ۔ دفتروں والے اپنے افسروں کے سخت روّیے کو روتے رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود اکثر لوگ ساری زندگی اسی حال میں گزار دیتے ہیں۔کتنا مجبور ہے انسان ! سب سے بڑی چیز ہے خوف۔ ہر آدمی آنے والے کل سے خوفزدہ ہے۔ اگر یہ دفتر یا فیکٹری بند ہو گئی؟ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا؟ اس ملک کو اگرکچھ ہوگیا تو میری اولاد کا کیا ہوگا؟ اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ کسے ملک کے مستقبل پر یقین ہے او رکسے نہیں ۔ زرداری اور شریف خاندانوں نے بلا وجہ اپنی دولت بیرونِ ملک منتقل نہیں کی ۔مخلوق کی اکثریت خوف کا شکار ہے کہ آنے والے کل میں ان کا چراغ گل ہو گیا تو وہ کیا کریں گے؟سب سے بڑا خوف انسان کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ باقی سب کا کچھ نہ کچھ بن جائے گا‘ میں پیچھے رہ جائوں گا۔ لاکھوں لوگوں میں ایک بندہ ایسا ہوتاہے جویہ کہتا ہے کہ میں جس حال میں ہوں‘ خوش ہوں۔

انسان اپنے اس خوف کا مقابلہ کرنے کے لئے دولت اکٹھی کرنا شروع کر دیتاہے۔اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے خوف میں کمی آئے۔ الٹا اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ ’’خود سے خدا تک ‘‘ جیسی عظیم کتاب کا مصنف ، میرا دوست ناصر افتخار کہتاہے کہ نفس ہر چیز کو کئی گنا بڑا کر کے دکھاتاہے۔انسان سوچتا ہے کہ کل جو حادثہ وقوع پذیر ہونا ہے ، وہ اس قدر بڑا ہوگا کہ یہ ساری دولت اس کا مداوا کرنے میں ناکام رہے گی۔ مزید جمع کرو۔

کروڑوں برس سے انسان کےابائو اجداد زمین پر وقوع پذیر ہونے والے حادثات دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ خوف جنیاتی طور پر ہم میں منتقل ہوا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے ، جیسے انڈونیشیا کے باجائو قبیلے کے جو لوگ غوطہ خوری نہیں بھی کرتے ، ان کی اولاد بھی پیدائشی طور پر عام لوگوں کی نسبت کئی گنا زیادہ وقت سانس روک سکتی ہے ۔ شہابِ ثاقب کی بارش‘ دمدار ستارے‘ بڑے آتش فشائوں کا پھٹنا‘ سونامی اور زلزلے ‘سمندر کاخشکی پہ چڑھ آنا‘ پورے پورے شہروں کو اجاڑ دینے والے وبائی امراض۔ انسان کے لاشعور میں ایٹمی حملوں کا خوف بھی پوشیدہ ہے۔ خانہ جنگیوں اور دشمن قبیلوں کی یلغار۔ اس کے علاوہ انسانی لاشعور میں قیامت برپا ہونے کا خوف بھیBuilt In ہے۔ اندر ہی اندر ہر بندے کو یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا‘ جب سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹائم بم تو ہمارے اندر لگا ہوا ہے ۔ جیسے ہی وقت مکمل ہوتا ہے ، انسان گر کے مر جاتا ہے ۔ سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے ۔

نیزوں کے کتنے بھرپور وار اور کتنے لبریز جام

کل انقرہ میں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے

ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارا یہ نازک بدن ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے دشمن کی ضرورت ہی کیا! دماغ کے اندر جو دشمن رہتاہے‘ وہ نفس ہے۔ اسکی خواہشات اس قدر زیادہ ہیں کہ کبھی پوری ہو ہی نہیں سکتیں۔ اس نے انسان کو کہکشائوں پہ راج کرتے دیکھا ہے ۔ یہ چھوٹا سا سیارہ اس کی بھوک کیسے مٹائے ؟

ہاں، البتہ دنیا میں ایک اور طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اس بے پناہ خوف اور اس بے کراں خواہش پہ غالب آجاتے ہیں۔خوف اور خواہش سے آزاد ہونے کے بعد ان کی عقل میں نور پیدا ہوجاتاہے۔وہ یکسو ہو جاتے ہیں۔ سرکارﷺ نے فرمایا تھا:’’مومن کی بصیرت سے ڈرو‘ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ ان لوگوں میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے‘ جس کی مدد سے نا صرف پوری انسانی تاریخ پہ ان کی نظر ہوتی ہے‘ بلکہ وہ آنے زمانوں کے بارے میں بھی درست اندازے قائم کرتے ہیں۔ جیسا کہ قائد اعظمؒ نے اپنے مخالفین سے کہا تھا کہ ان کی اولادیں غیروں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا کریں گی۔

ان لوگوں کے ذریعے خدا تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ اقبالؔ اور جناحؒ وہی تو تھے۔ انگریز حکومت اور ہندو اکثریت کے مقابل اپنے ٹی بی زدہ پھیپھڑوں سے سانس لیتے قائد کو کیسا یقین تھا کہ دنیا کی کوئی قوت پاکستان کو Undoنہیں کر سکتی۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان بچ نہیں سکتا.....یہاں سے نکل لو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)