وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

June 05, 2016

احمد ندیم قاسمی کا مصرعہ، وہ بھی جنرل راحیل شریف کی زبانی اور ایسے میں جب بجٹ معاشی کم مائیگی کے سوا کوئی مژدہ نہ لئے ہو، تو پھر ایسے میں فصلِ گل کی تمنا کوئی کیسے کرے؟ جبکہ اندیشہ ہائے زوال کی فراوانی ہی فراوانی ہو۔ کوئی بجٹ بنائے بھی تو کیسے جب گھر میں نہ ہوں دانے اور اماں چلی ہو بھنانے۔ جب معیشت جھوٹی ہو اور قومی ذرائع بشمول محاصل محدودتر، تو پھر سارے زمانے کو آنکھیں دکھائی جا سکتی ہیں نہ غربت کے ماروں کی کوئی اشک شوئی۔ خرچے ہیں کہ ہر کس کے ہر دم بڑھتے جاتے ہیں اور آمدن ہے کہ بڑھنے کو نہیں تو ایسے میں گھر میں فساد تو ہونا ہی ہے۔ ایسے میں وزیرِ خزانہ درد سری مول لے بھی تو کس کام کی۔ معاشی نمو ہے کہ منجمد ہو کے رہ گئی ہے۔ جب سرمایہ کاری ہی کم ہوگی تو پیداوار کیوں بڑھے گی، بھلے آپ 3 فیصد کو 4.7 فیصد ظاہر کریں۔ زراعت میں منفی رجحان کا اثر اس کے معیشت میں حجم21فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ اور جب صنعت و حرفت کے 18 شعبوں میں سے 10 منفی اشارے دیں تو مجموعی قومی پیداوار تو بڑھنے سے رہی۔اس بار کچھ رعایات زرعی شعبے اور برآمدی شعبوں کو دی گئی ہیں جس کا کچھ اثر تو یقینی ہوگا، لیکن یہ کہ معیشت دوڑ پڑے گی، ایسا ہوتا نظر آنے کو نہیں۔ آپ لاکھ جتن کر لیں جب تک زرعی معیشت کی سماجی و تکنیکی بنیادیں نہیں بدلیں گی، زراعت گھاٹے کا سودا رہے گی۔ اسلئے زرعی اصلاحات چاہئیں اور زراعت میں پیداوار کی صلاحیتوں کو دُگنا چوگنا کرنے کیلئے پانی، کھاد، بجلی، ادویات اور اعلیٰ پیداواری بیجوں اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی۔ فصلوں کی موسمی تبدیلیوں اور منڈی کی بدلتی ضرورتوں کے مطابق ردّ و بدل اور زیادہ منفعت بخش شعبوں پہ توجہ کی ضرورت ہوگی۔ جیسے پھل پھول، مویشی بانی، دودھ، گوشت کی پیداوار زراعت سے متعلق صنعتی شعبوں کا فروغ۔ سب سے بڑھ کر اگر دیہی غربت، کسانوں کی بے زمینی، ناخواندگی، صحت اور بے روزگاری کو ایک مربوط پالیسی کے ذریعہ حل نہیں کیا جاتا، زراعت یونہی موسموں کی حشر سامانیوں اور عالمی منڈی میں زرعی اجناس اور زرعی پیداوار کیلئے ضروری اشیاء کی قیمتوں کے مد و جذر سے بدحال رہے گی۔ اور اگر زراعت پامال رہے گی تو ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی بدحال رہے گی۔ اوپر سے بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار ہیں زراعت کے نام پر ہر طرح کی مراعات اور آمدنی پر ٹیکس کے استثنیٰ سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ یہ عجب نہیں کہ جب بھی نواز شریف حکومت آتی ہے تو زرعی شعبہ پیچھے چلا جاتا ہے اور تاجروں ٹھیکیداروں کی موج لگ جاتی ہے۔
حکومت کو جو خفگی ہوئی وہ برآمدات میں کمی کے ہاتھوں۔ اس بار تو برآمد کنندگان کیلئے وہ تمام رغبتیں اور چھوٹیں دے دی گئی ہیں جس کا کہ وہ تقاضا کرتے رہے ہیں۔ دیکھئے آئندہ سال اُن کی فصل کیا گل کھلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 100 ارب ڈالرز کی برآمدات کی صلاحیت ہے، لیکن اس کا چوتھائی حاصل بھی نہیں۔ صنعت مقابلہ نہیں کر سکتی اگر اس کی زراعت کی طرح پیداواری اخراجات کم نہ ہوں گے۔ جیسے تیل اور گیس کی عالمی قیمتوں کے گرنے کے باوجود، ایندھن و بجلی، ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث عالمی قیمتوں پر دستیاب نہیں اور بجلی کی دستیابی کیا خاک ہوگی اگر اس کی پیداوار پچھلے برس کی نسبت کم رہی۔ برآمدات کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کپاس اور ٹیکسٹائل کے گرد گھومتی ہے، جبکہ اسے نصف درجن مصنوعات کے تنگ برآمدی دائرے سے نکال کر متنوع کرنا ہوگا۔ کیا یہ خوفناک بات نہیں کہ دودھ کی نہروں والے ملک کو دودھ کی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم ڈیری کی مصنوعات کے بڑے برآمد کنندہ بنیں۔ مفت بروں کی سرمایہ داری سے پائیدار صنعتی بنیاد تو بننے سے رہی۔ اِس کسٹمز ڈیوٹی، اُس درآمدی ٹیکس کو آگے پیچھے کرنے سے بھلا صنعت کا پہیہ چلنے والا ہے۔ حیرانی ہوئی ہے کہ صنعتکاروں اور تاجروں کی حکومت صنعتی انقلاب کو فروغ دیتے نظر نہیں آتی۔ شاید یہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں کچھ ایسی مگن ہے کہ کچھ اور سجھائی نہیں دیتا۔ جب سرمایہ کاری کی قومی آمدنی میں شرح دُگنی نہیں ہوگی، صنعت کا پہیہ چلنے والا نہیں اور صنعت میں پیسہ کون لگائے جب بنک کو چھ فیصد شرح سے بھی کم پر پیسہ دستیاب ہو اور حکومتی کاغذی اسکیموں میں نفع دُگنا ہو، یا پھر زمینوں اور تعمیراتی کاموں میں مال ہی مال ہو۔ بینک سے قرض لو، پلاٹ خریدو اور بیچو اور مزے کرو۔
رہی بات آمدنی اور خرچے کی (جو ہر گھر اور ہر حکومت کے بجٹ کا مرکزی نکتہ ہے) تو بجٹ خسارے کے کم ہونے کے باوجود اس کی جمع تفریق پر سر کھپانے کی بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ پیسے والوں سے ٹیکس کیسے وصول کیا جائے کہ یہ موجودہ قلیل شرح سے بڑھ کر کم از کم دُگنا ہی ہو جائے۔ بالواسطہ ٹیکسوں (جو عوام سے وصول ہوتے ہیں) کی موجودہ 63 فیصد شرح کو کم سے کم کرکے آمدنی اور اخراجات پر ٹیکس کیسے بڑھایا جائے۔ کارپوریٹ سیکٹر و تاجر طبقہ ٹیکس دیتا ہے نہ زمیندار تو آمدنی کہاں سے ہوگی۔ جب آمدنی کم ہوگی اور خرچے زیادہ تو پھر کشکول پھیلانا پڑتا ہے۔ اب قرضے ہیں کہ بڑھتے ہی جاتے ہیں اور گزشتہ تین برس میں کشکول توڑنے کے دعویداروں نے کشکول توڑنے کی بجائے اس کا دامن پھیلانے کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اب کل قرض کا دو تہائی داخلی اور ایک تہائی خارجی ہے۔ اور 2016ء تک ہمیں 12 ارب ڈالر ادا کرنا پڑے گا۔ قرض کا جال اب ہماری گردن کا طوق بننے والا ہے۔ قرض کی قسط دفاعی اخراجات اور انتظامی خرچے پورے کرنے کے بعد بچتا کچھ بھی تو نہیں جو ترقی کو مہمیز لگانے کا کام کرے۔ جاری خرچے ترقی کے خرچوں پہ حاوی ہوتے جاتے ہیں اور ملک کی انسانی بنیاد اور جسمانی ڈھانچے کمزور ہوئے جاتے ہیں۔ اور یہ ہے سیاسی معیشت کا سوال کہ حکومت کس کام پر کیا خرچ کرتی ہے اور کہاں سے وصول کر کے ایسا کرتی ہے۔ جو جتنا تگڑا ہے، وہ اُتنا ہی بڑا حصہ لے جاتا ہے اور جو جتنا کمزور وہ اُتنا ہی خالی رہ جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بڑوں، تگڑوں اور لٹیروں کے کھاتے پورے کرتے کرتے قوم نڈھال اور ملک تباہ حال۔ اوپر سے قرضوں کی قسط، سلامتی کے چہار سو خود پیدا کردہ چیلنجوں کے تقاضے اور اُن پر اُٹھنے والے اخراجات اور غیرپیداواری بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے، عوام کی غذائی سلامتی، ذہنی و جسمانی نشوونما اور صحت و تعلیم کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ پاکستان میں تعلیم پر فقط 2.1 فیصد خرچ کیا جاتا ہے اور 173 ملکوں میں ہم 164 ویں مقام پر ہیں۔ اسی طرح صحت پر 0.92 فیصد خرچ کیا جاتا ہے اور 192 ملکوں میں ہمارا مقام 191 واں ہے۔
ایسے میں نہایت اہم سوالات اُٹھتے ہیں، جو کوئی اُٹھانے کو تیار نہیں، اُن کے حقیقت پسندانہ جوابات دینا تو دُور کی بات۔ سادہ سوالات کا صاف جواب دیئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا اور اس کا ہمیں بجٹ دستاویز میں جواب نہیں ملتا اور عوام کو بجٹ کے شماریاتی گورکھ دھندوں میں پھنسا دیا جاتا ہے، جو اُن کی سمجھ سے باہر ہے۔ اور تو اور اپوزیشن کو فہم ہے، نہ میڈیا کے بڑے حصے کو کہ وہ اصل مُدّوں پر توجہ مبذول کروائے۔ چند سوالات قارئین کی نذر: قومی ترقی سے کیا مراد ہے اور اس سے کس کی ترقی مراد ہے؟ کیا عوام کی ترقی کے بغیر قومی ترقی اور لوگوں کی سلامتی کے بغیر ملکی سلامتی ممکن ہے؟ موجودہ مفت خوری کی سرمایہ داری اور دقیانوسی زمینداری کی جگہ پیداوار، صنعتکاری اور کاشتکاری کو کیسے فروغ دیا جائے؟ غیرپیداواری اخراجات بشمول دفاعی و انتظامی اخراجات کو کیسے کم کیا جائے؟ کرپٹ انتظامیہ کو اچھی انتظامیہ سے کیسے بدلا جائے؟ امیروں کو کیسے ٹیکسوں کے دائرے میں لایا جائے اور غریبوں پر اس کا بوجھ کیسے کم کیا جائے، داخلی قرضوں سے نجات کیسے ہو اور بیرونی قرضوں کو کیسے با آسانی قابلِ واپسی بنایا جائے؟ قومی اخراجات عوامی ضرورتوں کے مطابق ہوں یا غیرپیداواری ڈھکوسلوں کے لئے؟ عوامی خوشحالی و سلامتی کو قربان کئے بغیر عسکری سلامتی کی قابلِ برداشت حد کیا ہو؟ خطے اور دُنیا سے تعلقات بہتر بنانے اور تجارت و کاروبار بڑھانے سے معیشت کو ہونے والے فائدوں سے انکار کیوں کیا جائے؟ داخلی و بیرونی امن کی پالیسیوں کو فروغ دیئے بغیر معاشی استحکام کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ ملک و قوم کیلئے دُنیا بھر سے جھگڑا کرنے کی بجائے امن و ترقی کیلئے موجودہ خارجی و سلامتی کی پالیسیوں کو بدلنا کیوں ضروری ہے جب کہ معیشت دہشت گردی اور علاقائی تنازعات کا بوجھ اُٹھانے کی متحمل نہیں۔
کیا سیاستدان، معیشت دان، صنعت کار، کاشتکار، ماہرین، جرنیل اور افسران ان سوالات پہ غور کرنے کو تیار ہیں؟ کیا طاقتور، اُمراء اور بالعموم حکمران طبقے اپنی موجودہ ناقابلِ برداشت پالیسیوں کو بدلنے اور قوم پرڈالے گئے غیرضروری بوجھ کو کم کرنے پر تیار ہیں۔ بجائے اس کے کہ تگڑا زورِ بازو سے سب کا بازو مروڑ کر سب کچھ ہڑپ کرنے پہ بضد ہو تو پھر بچےگا کیا؟ اپنے اپنے پائوں کپڑے کے مطابق سکیڑنے کی ضرورت ہے، ورنہ پائوں رہیں گے نہ چادر اور غریبوں کو بھلا اس سے کیا لینا دینا، اُن کے حالات اس سے اور بُرے کیا ہوں گے کہ جو ہیں۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو