دیگر ممالک نے اپنے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا ؟

June 05, 2016

متحدہ امریکہ ۔ وفاق کی مختلف اکائیوں کے درمیان مسائل۔ حل کی مربوط تلاش
پاکستان کی طرح امریکہ بھی ایک وفاقی مملکت ہے۔ یہاں اکثر دریا کسی ایک ریاست سے دوسری ریاست میں داخل ہوتے ہیں۔امریکی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اِس ملک کے اندر آبپاشی، آب نوشی اور دیگر تجارتی مقاصد کیلئے پانی میں ساجھے داری کی وجہ سے ریاستوں کے درمیان شدید تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ امریکی آئین اِن تنازعات کے حل میںصرف ایک محدود حد تک معاونت کرسکتا ہے۔آئین کے تحت تنازعات کو حل کرنے کیلئے کانگریس سے رجوع کرنا پڑتا ہے لیکن اِن مسائل کے حوالے سے یہ قدم عموماً کا رگر ثابت نہیں ہوتا اور اکثر معاملات میں فریقین نے اِن پیچیدہ مسائل کو مذاکرات کی میز پرہی حل کیا۔
پوٹو میک دریا۔ پانی کی قِلّت سے نمٹنے کی ایک عُمدہ مثال
امریکہ میںمختلف ریاستوں کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی معاہدوں کو بروئے کار لانے کی ایک دلچسپ مثال دریائے پوٹو میک کے بارے میں ہے۔ یہ دریا صرف 652 کلومیٹر طویل ہے لیکن ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے علاوہ یہ چار ریاستوں میں بہتا ہے۔ کانگریس نے 1940 ء میں پوٹو میک دریا کے بارے میں انٹراسٹیٹ کمیشن قائم کرنے کی منظوری دی۔ جس میں چاروں ریاستوں ، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور وفاقی حکومت کا ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔ 1960 ء کی دہائی کے آخر تک کانگریس اور چاروں ریاستیں پانی کی قِلّت کے معاملے پر تشویش کا شکار ہوچکی تھیں۔اس تشویش کے نتیجے میں فریقین نے انٹراسٹیٹ کمیشن کے دائرہ اختیار کو بڑھا دیا ،تاکہ باہمی تعاون کی ایک ایسی تنظیم قائم کی جاسکے جو خشک سالی کے دوران دریا سے پانی کے استعمال کو ایک جامع انتظام کی شکل دے سکے۔1978 ء میں دریائے پوٹومیک کے بیسن میں واقع ریاستیں پانی کے زیادہ استعمال اور خشک سالی جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے باہمی تعاون پر رضامند ہوگئیں، جس کے بعد 1982 ء کا معاہدہ طے پایا ۔ اِس معاہدے کے تحت پانی سے متعلق اداروں کو اس بات کی اجازت دے دی گئی کہ وہ جیننگز رینڈولف ڈیم پر پانی ذخیرہ کرنے کے حقوق خرید سکتے ہیں اور خشک سالی کے دوران دیگر چار ڈیموں سے پانی کے اخراج کے انتظام کو باہمی طور پر اس طرح مربوط بنا سکتے ہیں گویا اُن سب کا انتظام کسی ایک ادارے کے تحت چلایا جارہا ہو۔تعاون کے اس انتظامی ڈھانچے کے تحت مالی معاملات کیلئے کسی بھی حکومت کا ایک ادارہ کسی دوسرےحکومتی ادارے سے ’’واٹر شیڈ سروسز‘‘ یا خدمات خریدتا ہے اور اگر کوئی فریق خشک سالی کے دوران پانی کے اخراج کا مطالبہ کرتا ہے تو اُسے مذکورہ ڈیم کے آپریشن اور مرمت پر اُٹھنے والے اخراجات کا ایک مخصوص حصہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
دریائے ڈیلاویئر۔خود مختار کمیشن کے زیرانتظام ایک خزانہ
دریائے پوٹو میک کے برعکس ڈیلاویئرریور بیسن کمیشن کو زیادہ قانونی اختیار حاصل ہے۔ نیویارک، نیوجرسی، پنسلوانیا اور ڈیلاویئر کی ریاستوں پر مشتمل یہ کمیشن 1961ء میں قائم کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے بھی اس کمیشن کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے ، جبکہ کمیشن میں اس کی نمائندگی بھی ہے۔ ڈیلاویئر دریا کے بیسن میں تقریباً 80لاکھ افراد رہتے ہیں۔ 1929 ء میں نیو جرسی نے نیویارک کی ریاست کو دریائے ڈیلاویئر کے بالائی علاقے میں پانی کا رخ موڑنے سے روک دیا۔ پانی کا رُخ تبدیل کرنے کا مقصد نیویارک شہر کو پانی فراہم کرنا تھا۔معاملہ عدالت میں پہنچا اور 1931 ء میں سپریم کورٹ نے مذکورہ مقصد کیلئے محدود پیمانے پر پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی کہ زیریں علاقوں کیلئے پانی کی متعین کردہ مقدار کا اخراج جاری رکھا جائے۔ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے میں لکھا جانے والا یہ جملہ’’کسی دریا کی افادیت صرف استعمال میں لائی جانے والی چیز ہی نہیں بلکہ یہ ایک خزانے کی مانند ہے‘‘ ۔ اب دنیا بھر کے عدالتی فیصلوںکا حصہ بنتا ہے۔سپریم کورٹ نے مزید کہا ’’دریا زندگی کی بنیادی ضرورت فراہم کرتاہے، لہٰذا جن لوگوں کو اس پر اختیار حاصل ہے، اُن کے درمیان پانی کی محتاط راشن بندی ضروری ہے‘‘۔ ڈیلاویئر کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بیسن کیلئے پانی کی منصوبہ بندی، تقسیم/ حصہ داری، نئے آبی ذخائر کی تعمیر، سیلاب کے سدِّباب اور آلودگی پر قابو پانے کیلئے مختلف اقدامات عمل میں لاسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک کمیشن نے اپنے تمام قانونی اختیار استعمال نہیں کئے۔ اس حقیقت کے باوجود ڈیلاویئر ریور بیسن کمیشن امریکہ میں علاقائی دریا کے حوالے سے ریاستوں کے درمیان باہمی تعاون کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے۔
دریائے کولاراڈو۔ جہاں دُنیا کے سب سے زیادہ ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں
امریکہ میں کوئی ایسا آسان’’قانونی حل‘‘ موجود نہیں ہے، جو ایک سے زائد ریاستوںکے درمیان بہنے والے دریا کے پانی کی فوری اور منصفانہ تقسیم ممکن بنا سکے۔ ایسی صورت میں بہتر طرزِعمل یہی ہے کہ باہمی تعاون پر مبنی ایک ایسے طریقہ ٔ کار پر انحصار کیا جائے جس کے ذریعے دریائی پانی کے انتظامات کو اِس طور پر چلایا جائے گویاکہ دریا کے اوپر تعمیر کیا گیا سارا انفراسٹرکچر کسی ایک مشترکہ ادارے کی ملکیت ہے۔ اِس طرح کے انتظام میں سب سے اُمید افزا طریقہ وہ باہمی لین دین ہے جسے ’’ واٹر شیڈ خدمات کے عوض ادائیگیوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ایک ریاست دوسری ریاست کو سیلاب سے بچائو کی خاطر کئے گئے اضافی اقدامات کے عوض رقم ادا کرتی ہے، یا خشک سالی کی صورت میں کوئی ادارہ دریا کے بالائی علاقوں میں واقع پانی اکٹھا کرنے کیلئے آبی ذخیرے کے ڈیم کی سہولت کرایہ پر مہیا کرے، یا کوئی ریاست اپنے حصے کے پانی کو کسی دوسری ریاست میں واقع آبی ذخیرے میں جمع کرے اور وقت پڑنے پر اُسے استعمال میں لائے۔ مثال کے طور پر دریائے کولاراڈو کے زیریں بیسن میں واقع ریاستوں نے پانی کو ایک دوسرے کے پاس جمع کرانے کا اچھوتا نظام اختیار کیا ہے۔ جو ریاست (یا مقامی ادارہ) اپنا پانی دوسری ریاست میں ذخیرہ کرنا چاہتا ہے وہ اس ریاست (یا مقامی ادارے) کو رقم ادا کرتا ہے۔ اس بات کیلئے باہمی رضامندی وفاقی قوانین کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے جن کے تحت ریاستوں کو اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ وہ اپنے پانی کے ’’غیر استعمال شدہ حصے‘‘ کو استعمال میں لائیں یا پھر اُسے ذخیرہ کرلیں۔
آل امریکن کینال : ضائع شدہ پانی کو بچانے اور اسے استعمال میں لانے کے لئے باہمی تعاون
پاکستان میں دریائوں کا پانی ، نہروں، راجباہوں اور کھالوں سے بہتا ہوا کھیتوں تک پہنچتا ہے۔ 1976 ء سے 2015 ء تک ہمارے دریائوں میں بہنے والے پانی کی فی سال اوسطاً مقدار 145 ملین ایکڑ فٹ ہے، جس میں سے 101ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ نہروں میں منتقل کئے گئے 101 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 40 ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں سے کھیتوں تک پہنچنے کے دوران کم ہوجاتا ہے۔ یہ کمی 4 ملین ایکڑ فٹ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے اور 36ملین ایکڑ فٹ پانی زمین کے اندر جذب ہونے کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔گویا کھیتوں تک صرف 61 ملین ایکڑ فٹ پانی ہی پہنچ پاتا ہے۔ زمین کے اندر جذب ہونے والے 36 ملین ایکڑ فٹ میں سے 20 ملین ایکڑ فٹ ہمار ے جنوبی علاقوں میں اُن جگہوں پر جذب ہوتا ہے جہاں زیرِ زمین پانی کھارا یعنی ناقابل استعمال ہے جبکہ 16 ملین ایکڑ فٹ پانی اُن علاقوں میں جذب ہوتا ہے جہاں زیرِزمین پانی میٹھا یعنی قابلِ استعمال ہے۔ اس پوری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کھارے پانی کے علاقوں میں موجود اپنی نہروں کو پختہ کرلیں تو 20 ملین ایکڑ فٹ پانی بچاسکتے ہیں۔ تاہم کھارے پانی کے علاقوں میںنہروں کو پختہ کرنے کا منصوبہ اس وقت تک تعمیر نہیں کیا جاسکتا جب تک اس منصوبے پر کی جانے والی سرمایہ کاری واپس ملنے کی اُمید نہ ہو۔اگر ہم اس 20 ملین ایکڑ فٹ پانی کو بچا پائیں تو پاکستان میں 20 ملین ایکڑ مزید قابلِ کاشت اراضی کو زرعی مقاصدکیلئے سیراب کیا جاسکتا ہے۔ دریائے کولاراڈو کے زیریں علاقے میں تعمیر کی گئی آل امریکن کینال کئی سالوں تک مٹی کے کناروں والی کچیّ(ناپختہ) نہر تھی اور اس بنا پر زمین کے اندر جذب ہونے کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوجاتی تھی۔ یہ نہر جو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کے نزدیک شرقاً غرباً بہتی ہے، دریائے کولاراڈو کا پانی جنوبی کیلیفورنیا کے اضلاع میں واقع اراضی کو سیراب کرنے کیلئے پہنچاتی ہے۔ 2003 ء میں وفاق اور ریاست اس نہر کو پختہ کرنے اور نتیجتاً بچائے گئے پانی میں حصہ داری پر رضامند ہوگئے۔ سان ڈی ایگوکائونٹی واٹر اتھارٹی نے اس مقصد کیلئے رقم مہیا کی اور اس کے عوض اُس پانی کا ایک حصہ حاصل کر لیا ،جو قبل ازیں زمین کے اندر جذب ہوجاتا تھا۔
ہم ایسا کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکے؟ کیونکہ ہمارے نزدیک پانی کی کوئی مالی وقعت ہی نہیں۔ ہمارے اِسی طرز عمل کے پیش ِ نظر کہا جاتا ہے کہ ’اگر کسی چیز کی قدروقیمت ہی نہیں ، تو آپ اس کے مستحق نہیں۔