ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے باوجود تشدد میں کمی نہیں آئی، منصور خان

September 26, 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں سابق پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے باوجود تشدد میں کمی نہیں دیکھی گئی، کالعدم ٹی ٹی پی کی کئی شرائط ریاست پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہیں، افغان طالبان کو ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشتگرد گروپوں کو واضح پیغام دینا ہوگا، افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ہزاروں ارکان موجود ہیں، مدبر لوگوں کی رائے ہے کہ ٹی ٹی پی کا معاملہ قبائلی چینلز کے ذریعہ حل کیا جائے،افغان طالبان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن انہیں شکایات بھی ہیں۔ منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کسی کو اندازا نہیں تھا کہ افغان طالبان دو دن میں کابل پر کنٹرول حاصل کرلیں گے، افغانستان میں چار دہائیوں سے غیرملکی موجودگی کے خلاف جذبات تھے، افغان امن عمل میں سابق افغان صدر اشرف غنی کی بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی بھی شریک تھی، افغانستان میں انٹرا افغان ڈیل بہت بڑا چیلنج ہے، 1970ء کی دہائی سے افغانستان میں پاور شیئرنگ کا فقدان رہا ہے، سوویت یونین کے انخلاء کے بعد بھی انٹرا افغان ڈیل نہیں ہوسکی تھی، افغانستان میں سیاسی سیٹلمنٹ کی راہ میں اندرونی رکاوٹیں حائل ہیں، پاکستان کی اشرف غنی حکومت سے آخری سال میں ٹرانزیکشنل فریم ورک پر اتفاق رائے کیلئے کافی بات ہوئی۔ منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ گلبدین حکمت یار، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی بھی مانتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، جامع حکومت افغانستان کی ضرورت ہے لیکن طالبان اس کی اپنی تشریح کرتے ہیں، افغان اپوزیشن کہتی ہے کہ سابقہ سیاسی نظام میں شامل سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کیا جائے، افغان طالبان کو اپنی سیاسی طاقت مجتمع کرنے میں تھوڑا وقت لگا ہے، افغان حکومت ملک میں سیاسی استحکام کیلئے فضا پیدا کرے۔