ہمارے 5 سماجی مغالطے

October 06, 2022

گاہے خیال آتا ہے ہمارے معاشرے میں مستعمل چند کھوکھلے ،بے بنیاد اور بیہودہ جملوں پرپابندی لگادی جائے تو زندگی کیسی ہوگی؟مثال کے طور پر مذہب کو دھندہ سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے والے گُروکہتے ہیں یہ دنیا فانی ہے ،یہاں دل مت لگائو۔ان کے گیان کا بین السطور مفہوم دراصل یہ ہوتا ہے کہ سب دھن دولت ہمیں دان کردو۔نوبیل ایوارڈ یافتہ حقوق انسانی کے کارکن اور سابقہ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹونے اس طریقہ واردات کو نہایت صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے:’’ جب عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے پادری افریقہ آئے تو ان کے ہاتھوں میں بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں تھیں۔انہوں نے دعاکے لئے ہاتھ اٹھانے کو کہا ،ہم نے اپنی آنکھیں بند کیں اور دست دعا بلند کئے جب آنکھیں کھولیں تو ان کے پاس زمینیں تھیں اور ہمارے ہاتھوں میں بائبل ‘‘۔اسی طرح ایک اورفرسودہ سوچ جس نے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کردی ہیں ،مال ودولت کی قدروقیمت نہ سمجھنا ہے۔بچپن سے ہی اس مغالطے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ غربت میں عظمت ہے ۔اقبال کا یہ شعر تو کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند انڈیل دیا جاتا ہے کہ ’’میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے۔خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘۔اس اہتمام کے نتیجے میں امیر ہونے کی سوچ شروع سے ہی فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے۔دولت کمانے کو گناہ سمجھا جاتا ہے ۔ہر امیر آدمی کو ’سیٹھ‘کا طعنہ دیا جاتا ہے اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس طرح کے جملے آپ کو ہر محفل میں بکثرت سننے کو ملیں گے کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے ،دولت ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی،دولت سے ہر چیز نہیں خریدی جا سکتی ۔مایوسی کوقناعت سمجھنے والے ان عقل کے اندھوں کو کوئی بتائے کہ غربت میں عظمت ہوتی تو دنیا بھر کے غریب جانوروں سے بدتر زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔خودی اور خودداری کبھی کسی مفلس کے ہاں قیام نہیں کرتی۔عزت کی زندگی گزارنے کے لئےدولت کمانے والا میلا ہاتھ اس صاف ہتھیلی سے بدرجہا بہتر ہے جس پر نکھٹو،کام چور اور تساہل پسند شخص اطمینان کی سرسوں جمانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے تو سب ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟لڑکیاں کسی شہزادے اور راج کمار کے خواب کیوں دیکھتی ہیں ،کبھی کسی کو یہ کہتے سنا ہے ،کب آئے گا میرے خوابوں کا پلمبر؟حقیقت یہ ہے کہ دولت ہو تو ہر مسئلے کے بیشمار حل دربان بن کر آپ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔پیسے سے محبت نہیں خریدی جاسکتی مگر محبت کرنے والے ضرور آپ کی جھولی میں آگرتے ہیں ۔غربت دنیا کی سب سے بڑی آفت ہے مگر ہمارے ہاں اسے گلوریفائی کیا جاتا ہے تاکہ غربت کی چکی میں پس رہے لوگوں کو تکلیف کا احساس نہ ہو۔ایک اور گمراہ کن فلسفہ یہ ہے کہ صاحب ! دولت فتنہ ہے ،امیروں کو ذہنی سکون نہیں ہوتا۔یہ تھیوری محض سینہ گزٹ نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہورہی نت نئی تحقیقات کے ذریعے بھی غریبوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر چند برس قبل لندن اسکول آف اکنامکس کے زیر انتظام ہونے والی ایک اسٹڈی کے بعد انکشاف کیا گیا کہ حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی بلکہ اچھی صحت اور اچھا شریک حیات انسان کو خوش وخرم رکھتا ہے۔اس تحقیقی مقالے کے شریک مصنف پروفیسر رچرڈلیئرڈ سے کوئی پوچھے،حضور! اس ریسرچ پروجیکٹ کے لئے ملین ڈالر کا بجٹ دستیاب نہ ہوتا تو آپ کے چونچلے کیسے پورے ہوتے؟اور برانہ مانیں تو یہ بھی بتادیں کہ اچھا شریک زندگی اور اچھی صحت کا حصول دولت کے بغیر کیسے ممکن ہے۔اگر آپ موت کے معین وقت پر یقین رکھتے ہیں ،تب بھی کسی اچھے ہاسپٹل میں بہترین طبی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہوئے دنیا سے رخصت ہونابغیر علاج کے ایڑیاں رگڑ کر مرنے سے کہیں بہتر ہے۔امیروں کو ذہنی سکون نہیں ہوتا ،کمال کرتے ہیں آپ بھی ۔بجلی کا بل دیکھ کر آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جائے،گھر کا کرایہ دینے کے لئے اُدھار مانگنا پڑے،بستر علالت پردراز ہوں اور علاج کروانے کے لئے پیسے نہ ہوں،بچوں کے اسکول کی فیس اور دیگر تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے سال بھر اپنے جوتے اور کپڑے نہ خرید پائیں تو پھر بتائیں یہ ذہنی سکون کس چڑیا کا نام ہے۔امیروں کو بھی مسائل کا سامنا ہوتاہوگا مگر بارش برستے وقت کچا مکان گرنے کی پریشانی سے کہیں بہتر ہے کسی پرتعیش گھر میں ذہنی تنائو دور کرنے کیلئے موسم کا لطف اُٹھایا جائے۔‘‘

کبھی کوئی جانی یا مالی نقصان ہوجائے تو پرسہ دینے کے لئے کہا جاتا ہے،جو اللہ کو منظور۔قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے ،رب کو یہی منظور تھا،پروردگار کی یہی منشا تھی،یہ سب تقدیر کا کھیل ہے۔اس طرح کے جملے ایک طرف تسلی وتشفی کے نام پر حالات سے سمجھوتہ کرنے پر قائل کرتے ہیں تو دوسری طرف جرائم اور غلطیوں کی پردہ پوشی بھی کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اسپتال میں ڈاکٹر کی غفلت ،غیر معیاری دوا یا کسی اور سبب سے مریض کی موت واقع ہوگئی لیکن جب آپ نے اس پر اللہ کی مرضی کا لیبل چسپاں کر دیا تو حقیقی وجہ معلوم نہیں ہوسکے گی۔ ٹریفک حادثے میں گاڑی تباہ ہوگئی ،اگر آپ اسے اپنا نصیب سمجھ لیں گے ،غلطی کاتعین نہیں کریں گے تو بار بار حادثوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔گھر میں چوری ہوگئی ،کاروبار میں نقصان اُٹھانا پڑ گیا، ملازمت سے برطرف کردیا گیا، جب تک آپ اپنامحاسبہ نہیں کریں گے ،ناکامی کی وجوہات پر غور نہیں کریں گے ،مشیت ایزدی سمجھ کر سب کچھ قبول کرتے جائیں گے ،حالات جوں کے توں رہیں گے ،کچھ بھی نہیں بدلے گا۔