خوب تھی ادب پروری کی شام

November 25, 2022

پاکستان میں اردو کو بچانے کیلئے مولوی عبدالحق آگئے۔ انجمن ترقی اردو کو کراچی کی کھلی ریت میں قنات لگا کر بچانے کو بیٹھ گئے۔ پھر قدرت اللہ شہاب نے ایک طرف ایوب خاں کی تقریریں لکھنی شروع کیں اور دوسری طرف رائٹرز گلڈ کا جھنڈا لگایا، جسکے نتیجے میںخود صدر ایوب کو بٹھا کر سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت کے سیٹھوں نے ہوا کا رخ دیکھ کر ادیبوں کے لئے سال کے بہترین انعامات کا ڈول ڈالا۔ آدم جی ایوارڈ ، داؤد جی ایوارڈ اور اسی نوعیت کے دیگر بہت سے انعامات۔ جمیل الدین عالی اس صراحی کو بہت دنوں تک گھماتے رہے۔ پھر نئے بینکوں کے لئے دروازے کھلے تو بی سی سی آئی نے ایک اور بینک بنایا ۔ اس کے سربراہوں میں الطاف گوہر، روشن علی بھیم جی اور مشتاق احمد یوسفی شامل تھے۔ نظام سیاست بدلا۔ اچانک بی سی سی آئی بند ہوگیا اوردوسرا بینک چلتا رہا ۔ اب اسکے سربراہ مشتاق احمد یوسفی بنے۔ ڈاکٹر ممتاز حسن نیشنل بینک کے سربراہ تھے۔ انہوں نے مرجانے والے ادیبوں کی لائبریریاں خرید کر ، پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کرنا شروع کی۔ دس سال پہلے اس بینک نے ادب کی اور ادیبوں کی سرپرستی کے لئے ایک غیر سرکاری قسم کا ادیبوں کا گروپ بنایا اور ہر سال بہترین کتاب کو انعام دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے صرف اردو کے انعامات پھر انگریزی اور اردو میں بہترین تراجم کے انتخاب کا ڈول ڈالا ۔ تہذیبی استقامت کے ساتھ یوں ہوتا رہا کہ ادیبوں اور ادب شناسوں کو بلاکر سنجیدگی سے ایک شام میں انعام یافتگان کی تحسین، ان کو بلاکر عزت افزائی کرتے ہوئے، کچھ ادب کی پرورش میں نمایاں شخصیات کے ہاتھوں کتاب اور صاحب کتاب کی پرورش کی جاتی۔لطف کی بات یہ تھی کہ عموماً پبلشر منتخب ادیبوں کی کتابیں بھجواتے۔کوئی تیز رو ، خود اپنی کتاب بھیج دیتے۔ یہ بھی گوارا کرلیا جاتا۔ کوشش یہ تھی کہ نوبیل انعام کی طرح سیدھے سبھاؤ کے ساتھ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ منتظمین نے کہا کہ نوبیل انعام تو بڑے کروفر کے ساتھ دیا جاتاہے، ساری دنیا کے فنکاروں کو مدعو کیا جاتا ہےاور ساری دنیا کے چینل اس تقریب کو دکھاتے ہیں۔ ہم یہ جو صوفیانہ نشست کرتے ہیں۔ اس میں رنگ بھرنے کو لکس ایوارڈ کی تقریب کی طرح بڑے تزک واحتشام کے ساتھ منایا جائے۔ ایسی تقریبات کا ذمہ، خود بینک نہیں۔ آج کل کی ایونٹ مینج کرنے والی کمپنیاں کرتی ہیں۔ اس اہتمام کے ساتھ کہ ادب کی پھریری کو شعلہ فشاں کرنے کے لئے ٹی وی کے تمام نمایاں ستاروں کی جھلک کے ساتھ کچھ مزاح اور رقص کی جھنکار کو دیکھنے والوںکے کرسی پہ کم ازکم چار گھنٹے تک بیٹھے رہنے کا سامان کیا جائے۔

ٹی وی پہ یہ چینل کھانا پکانے کا پروگرام پیش کرتا ہے۔ شروع میں آلو گوشت ۔ بس اسطرح اس نابغہ روزگار تقریب میں جو ادب کے نام پر برپا کی گئی تھی۔ اس میں سب حور پری زاد شامل تھے۔ سوائے ادیبوں کے پھر بیانیے میں غلطیوں اور بے وزن شاعروں نے محرم کو مجرم بنانے کی روایت کو دہرایا ۔ بار بار ’’ نسخہ ہائے وفا ‘‘ کہا گیا ۔ ادیبوں سے کچھ بلوانے کی جگہ رقص اور گانے والوں کو جی بھر کے آزادی دی گئی۔ شہزاد دادا صاحب جو اس بینک کے سربراہ ہیں۔ بڑی معصومیت کے ساتھ ہمارے ساتھ بیٹھے رہے۔ ان چار گھنٹوں میں داڑھ گیلی کرنے کا بھی کوئی سودا نہیں تھا۔ انعام پانے والے ادیبوں کے نام مجرموں کی طرح پکارے گئے۔ وہ بے چارے کب ایسی جگمگاتی محفل اور دھوم دھڑکے کے لئے کہیں بلائے گئے تھے۔ کراچی والے تو راتوں کو جاگنے کے عادی ہیں۔ جانتے بھی تھے ایسی محفلوں میں عشائیہ رات کے بھیگ جانے کے بعد ہی آراستہ کیا جاتا ہے۔ ستم تو یہ ہوا کہ انعام یافتگان کو نمائشی تھیلوں میں چاکلیٹ تو دی گئی۔ مگر اس رقم کا چیک نہیں تھا،جسکے لئے انہیں ہوائی جہاز سے بلایا گیا تھا۔ ہر کوئی تو میری طرح بڑ بولا نہیں تھا ۔ وہ تو اسد محمد خان کی طرح ایک آدھ جملہ کہہ کر اجازت چاہتے ہیں۔خیر ہم تو انکے نمک خوار نہیں ہوئے۔ہوٹل واپسی پہ کچھ دال دلیہ کیا۔ دادا صاحب جو ابھی صرف نام کے دادا ہیں اور بنام خدا ،جوان خوبرو شخصیت کے مالک ہیں۔ انہیں ادب یا ادیبوں کو جاننے کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ البتہ انہیں یہ معلوم تھا کہ انور مقصود بہت ہنساتے ہیں سارے جہان چھان پھٹک کردیکھنے والے انور نے تقریب میں ادبی کو تاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف زہرہ نگاہ کی ایک نظم سنائی اور ہمارے ساتھ ڈبوں سے چاکلیٹ نکال کر کھاتے ہوئے ، چپ کرکے،ہماری طرح پناہ گاہوں کی جانب پلٹ آئے۔ ویسے تو خدا لگتی یہ ہے کہ انتظام کرنے والوںکا بڑی محنت سے اسٹیج سجانا،بنانا خوب تھا اور اس میں رنگ وہی استعمال کئے جو آجکل زمانے اور میڈیا کا چلن ہے۔ اس لئے میڈیا والے کبھی اپنے قبلے کا رخ ادب کی طرف نہیں موڑتے ، ایک دفعہ کرکے بھر پائے ہونگے۔

اسی نشست میں رضا صاحب اور رقیہ صاحبہ کی محنت، ہم سب کی عزت افزائی لائق تحسین رہی ۔ میڈیا اور ایونٹ مینجمنٹ کے گناہ ، انکے کھاتے میں نہیں لکھے جاسکتے ہیں۔ البتہ یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر ہماری تہذیب کا مذاق اڑانے کو یا مذاق کا نشانہ بنانے کے علاوہ کئی بے ادب تحریریں، بے ہنگم رقص کو برداشت کرنے کے لئے ان چار گھنٹوں میں ہماری میزوں پر سردی کی کوئی سوغات، منہ ہلانے کیلئے سوکھے ہونٹوں کو ترکرنے کے لئے کچھ نہیں تو کشمیری چائے سے ہمیں بہلایا جاتا تو پانچ گھنٹے لطف میں گزر جاتے۔

کراچی میں تقاریب اکثر ہوتی ہیں۔ ابھی آرٹس کونسل میں سہ روزہ موسیقی کانفرنس میں ہزاروں لوگ آئے اور گئے۔ ہم سارے ادیب بے وقوفوں کی طرح خاموش اسلئے تھے کہ چند دوستوںکوساری عمر کی محنت پر دادو تحسین ، محفل کے شرکااچھی طرح دیں گے۔غلطی ہماری تھی۔ ہمیں منڈوےکا لطف نہیں آیا۔بہرحال مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔