معاشی چیلنج اور شرح سود

November 27, 2022

قومی معیشت پچھلے کئی برسوں سے مختلف مقامی اور بین الاقوامی اسباب کی بنا پر جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے،اس کے باعث مہنگائی و بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن صورت حال میں جلد بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ان اسباب میں کورونا کی عالمی وباء کے بعد روس اور یوکرین کی جنگ، پٹرول اور گیس کا بحران اور پھر پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے اثرات نیز سیاسی افراتفری خاص طور پر اہم ہیں۔مروجہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں شرح سود کو معاشی کنٹرول کا آلہ تصور کیا جاتا ہے۔مہنگائی بڑھ رہی ہو تو شرح سود بڑھا کر مہنگائی میں کمی کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس سے معاشی سرگرمی میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جس سے قومی پیداوار گھٹتی اور کساد بازاری و بے روزگاری بڑھتی ہے ۔ حالات نے ہماری قومی معیشت کو اسی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے۔ بینک دولت پاکستان نے گزشتہ روز معاشی حلقوں کے مطابق بہت غیر متوقع طور پر شرح سود15 سے بڑھا کر 16 فی صد کردی ہے۔ اس فیصلے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیاہے کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ رہا جو اگلے سال بھی جاری رہنے کا امکان ہے‘امسال درآمدات 20.6‘برآمدات 9.8جبکہ ترسیلات زر 9.9ارب ڈالر رہیں‘رواں مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر پر آ گیا‘رواں مالی سال شرح نمو 2فیصد جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد رہنے کی توقع ہے‘اوسط مہنگائی 21 سے 23 فیصد رہنے کا امکان ہے‘بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار ہیں‘بجلی کی پیداوار میں مسلسل پانچویں مہینے کمی ہوئی اور یہ 5.2 فیصد تک گر گئی‘ توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں بالترتیب 35.2اور 35.7فیصد اضافہ ہوا‘مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.7 فیصد سے بڑھ کر ایک فیصد ہو گیا۔اعلامیے کے مطابق شرح سود بڑھانے کا مقصد مہنگائی کے رجحان کو روکنا ، مالی استحکام کو درپیش خطرات پر قابو پانا اورزیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کرنا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور رسدی دھچکوں کے سبب تحریک مل رہی ہے جس سے لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔زری پالیسی کے ذریعے سے اس صورت حال کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ تاہم شرح سود میں اضافے پر کاروباری حلقوں نے جو پہلے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ ، توانائی کی شدید قلت اور گرانی سے دوچارہیں، سخت بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے صدر نے شرح سود میں اضافے کے فیصلے کو غیردانشمندانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ ان کے بقول ملائیشیا کی2.25 ، چین کی 3.85 ، بھارت کی 4.5 اور بنگلہ دیش کی5.5 فیصد کی نسبت پاکستان کی شرح سود بہت زیادہ ہے ۔اس شرح پر کون قرض لے گا اور اپنی صنعتیں چلائے گا۔ایوان صنعت و تجارت کے نمائندوں کے مطابق ہماری معاشی صورت حال انتہائی غیر مستحکم ہے، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھل رہے،گیس اور بجلی کی قلت سے کارخانے بند ہورہے ہیں،زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں ہیں، ان حالات میں شرح سود میں مزید اضافہ معیشت کو بالکل ہی زمیں بوس کردے گا۔ وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت کا یہ موقف حقائق کے عین مطابق ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لائق بنانے کیلئے صنعتی وکاروباری حلقوں اور ملک کے ممتاز اقتصادی ماہرین کی مشاورت سے ایسے غیرمعمولی اقدامات عمل میں لائے جائیں جو قومی معیشت کو مزید زبوں حالی سے بچاتے ہوئے استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں‘وزیر خزانہ کو اس مقصد کیلئے فوری پیش رفت کرنی چاہئے ۔