بادشاہی مسجد کی روشنی اور اندھیرے!

December 02, 2022

بادشاہی مسجد لاہور فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ مسجد اورنگزیب عالمگیرنے تعمیر کروائی تھی۔ سرخ پتھروں سے بنائی گئی یہ خواب ناک مسجد دیکھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ گہری تاریک رات تھی۔ نو بج رہے تھے۔ بادشاہی مسجد کے میناروں سے روشنیاں نکل رہی تھیں۔ مرمریں گنبدوں کو لائٹوں نے سحرانگیز بنا رکھا تھا۔ ریستوران کی چھت پر میں اور قاسم سوری بار بار مسجد کی طرف دیکھتے تھے۔ ایسا خوبصورت منظر تھا کہ تھوڑی ہی دیرمیں ہم بھول گئے کہ ہم تازہ ترین سیاسی صورت حال پر تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔ دراصل عمران خان نے جب سےپنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں توڑنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاست میں خاصی ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔ اپوزیشن خاصی پریشان ہے۔تھوڑی سی پریشانی صوبائی وزیروں اور مشیروں کو بھی ہے۔ یہ اس دن کی بات ہے جب حتمی مشورے کےلئے عمران خان نے پی ٹی آئی کی سینئر لیڈر شپ کو بلایا ہوا تھا۔ اسی میٹنگ کے بعد ہم نے قاسم سوری کے ساتھ بادشاہی مسجد کے زیر سایہ کھانا کھایا۔ خرم شہزاد بھی ساتھ تھے۔ وہیں ایک دوست کافون آیا۔ کہنے لگا کہ قاسم سوری سے پوچھ کر بتائیں کہ ان کے خیال میں حکومتیں کب تک توڑ دی جائیں گی؟ پوچھنے پر پتہ چلا کہ معاملہ دو ہفتے سے زیادہ طویل نہیں۔ لیکن حتمی تاریخ کا اعلان جمعہ کے روز کئےجانے کا امکان ہے۔ میں نے کہا کہ عمرا ن خان کو تو ابھی ڈاکٹرز نے ایک مہینہ اور آرام کا کہاہوا ہے۔ گولیوں کے زخم ابھی مکمل طور پر بھرے نہیں ہیں۔ حکومت توڑنے کے فوراً بعد انہیں انتخابات کےلئے کمپین شروع کرنا پڑے گی تو قاسم سوری نے بتایا کہ یہ بات خان صاحب کے ساتھ میٹنگ میں ہوئی مگر خان صاحب نے کہا کہ میں 65 جلسے کرچکا ہوں۔ تمہارا خیال ہے 65جلسے کم ہوتے ہیں۔ اب سارا کچھ عوام کو معلوم ہو چکا ہے۔ ہر طرح کا کچاچٹھا عوامی میز پر دھرا ہے۔ سارے کے سارے سیاسی کرداربے نقاب ہو چکے ہیں اوراس وقت ہماری کمپین وفاقی حکومت کی چلتی پھرتی کارکردگی ہے جس نے ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچا دیا ہے۔

قاسم سوری اور میں دونوں ایک ہی بات سوچ رہے تھے کہ روشن پاکستان کیلئے فوری طور پرنئے انتخابات کی ضرورت ہے۔ سو ہماری گفتگو الیکشن پر مرکوز رہی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹ جانے کے بعد آئینی طور پر تین ماہ میں الیکشن ہونے ہیں۔ یعنی مارچ 2023میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات سے چار ماہ پہلے۔ یعنی ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے گا کہ کیا قومی انتخابات چار ماہ پہلے کرا دئیے جائیں یا کوئی درمیانی راہ نکالی جائے۔ وفاقی حکومت کی کوشش ہو گی کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی نگران حکومتوں کا دورانیہ تین کی بجائے سات آٹھ ماہ کر دیا جائے مگر نگران حکومتوں کا دورانیہ بڑھانے کیلئے آئین میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ ترمیم کی ضرورت ہے جو ممکن نہیں۔ خیال یہی ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس چارماہ پہلے الیکشن کرانے کےسوا اور کوئی راستہ نہیں۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ بلاول بھٹو اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کو ڈرامہ کہہ رہے ہیں مگرآصف علی زرداری چار ماہ پہلے الیکشن کرانے پر راضی ہیں۔

رات خاصی اندھیری تھی ۔چاند کہیں نہیں تھا۔ بس وہی بادشاہی مسجد کے گنبدوں اور میناروں کے ارد گرد پھیلی ہوئی روشنی تھی۔ ان روشنیوں کی بجلی کا بل تو محکمۂ اوقاف دیتا ہے مگر فائدہ عمارتوں کی چھتوں پر بنے ہوئے ریستوران اٹھاتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ تمام ریستوران اسی نظارے کے سبب چلتے ہیں۔ جیسے وفاقی حکومت کسی اور نظارے کے سبب چل رہی ہے۔ اطلاع یہی ہے کہ وہ نظارہ بھی ختم ہونے والا ہے۔ الیکشن کےامکانات بہت بڑھ چکے ہیں۔

پھر میں نے بادشاہی مسجد کی طرف دیکھا تو مجھے وہ چور یاد آئے جنہوں نے اس مسجد سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلین پاک چراکر برونائی میں فروخت کر دئیے تھے۔ ان چوروں کو آج تک کوئی سزا نہیں دے سکا۔ چوروں کو سزا دینے کاعمل بھی انتخابات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عوام کو اس جنگ میں فتح عطا فرمائے اور بادشاہی مسجد کی روشنیوں کے صدقے اس ملک سے اندھیرے دور کرے۔