ریکوڈک معاہدہ قانون کے مطابق، کوئی شق خلاف قانون نہیں، ماحولیاتی حوالے سے بھی درست، بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا، سپریم کورٹ

December 10, 2022

اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدے کو قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست قرار دیتے ہوئے اسکی توثیق کردی ہے، کوئی شق خلاف قانون نہیں، ماحولیاتی حوالے سے بھی درست، بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا.

فارن انوسٹمنٹ بل صرف بیرک گولڈ کیلئے نہیں، 50 کروڑ ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کرنیوالی ہر کمپنی کیلئے ہے، عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان 10ارب ڈالر جرمانے سے بچ گیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا آئین خلاف قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا، معدنی وسائل کی ترقی کیلئے سندھ اور خیبر پختونخوا قانون بناچکے.

صوبے معدنیات سے متعلق قوانین تبدیل کرسکتے ہیں، تنخواہوں کے قانون پر عمل مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائیگا، سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری، اسکل ڈیولپمنٹ کیلئے منصوبے شروع کئے جائینگے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز کھلی عدالت میں ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدہ کی قانونی حیثیت کے تعین کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ جزوی طو رپر چار، ایک کے تناسب سے جاری کیا ہے.

13 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کرسنایا۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس یحیی آفریدی نے صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے دو میں سے ایک سوال پر اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے ایک سوال کی حد تک دیگر بنچ ممبران کی رائے سے اتفاق کیا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی ریفرنس کے ایک حصے کی حد تک اپنی خاموشی کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کرینگے۔

عدالت نے 17 سماعتوں کے بعد 29 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا،فاضل عدالت نے قراردیاہے کہ ریکوڈک ریفرنس میں 2 سوالات پوچھے گئے تھے،(اول)آیا کہ نیا معاہدہ سپریم کورٹ کے ریکوڈک کیس کے 2013کے فیصلے سے متصادم تو نہیں ہے؟یا حکومت کو ایسے کسی معاہدے سے روکتا تو نہیں ہے ؟،(دوئم )آیا کہ نئے معاہدہ کے حوالے سیمجوزہ فارن انوسٹمنٹ پروٹیکشن اینڈ پروموشن بل 2022 کا نفاذ آئین و قانون سے متصادم تو نہیں ہوگا؟کیا یہ پبلک پالیسی کیخلاف تو نہیں ہے؟ اس حوالے سے امائیکس کیورائے(عدالت کے دوست ) اور عالمی ماہرین نے بھی عدالت کی معاونت کی ہے۔

عدالت نے قرار دیاہے کہ ماہرین کی رائے لیکر ہی وفاقی و صوبائی حکومت نے معاہدہ کیا ہے، معدنی وسائل کی ترقی کیلئے سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں قانون سازی کر چکی ہیں، قانون میں تبدیلی صوبہ ہائے سندھ و خیبر پختونخواء سمیت ہر صوبے کا حق ہے

آئین صرف خلافِ قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا ہے، صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں بھی تبدیلی کر سکتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیاہے کہ بیرک کمپنی کی جانب سے عدالت کو یقین دلایا گیاہے کہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عملدرآمد ہوگا اور مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائیگا جبکہ اس منصوبے سے علاقہ میں سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائیگی۔

کمپنی کے وکیل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اسکل ڈیولپمنٹ کیلئے منصوبے بھی شروع کیے جائینگے۔ عدالت نے حکومت کو پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کیلئے قانون سازی کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ عدالت نے قراردیاہے کہ ریکوڈک معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کیخلاف نہیں ہے، یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے۔

عدالت کی جانب سے مزید قراردیا گیا ہے کہ معاہدے میں کوئی غیر قانونی شق شامل نہیں ہے جبکہ معاہدہ کرنے سے قبل بلوچستان اسمبلی کو بھی ا عتماد میں لیا گیا تھا تاہم منتخب عوامی نمائندوں نے اس معاہدے پر کوئی اعتراض نہیں کیاہے، فیصلے کے مطابق بنچ کے رکن مسٹر جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریکوڈک معاہدہ کے عوامی پالیسی کے مطابق ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیاہے تاہم اس کے متعلق وہ اپنے تفصیلی فیصلے میں بیان کرینگے۔

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو وزیر اعظم کی سفارش پر صدر مملکت نے ریکوڈک کے اس نئے معاہدہ کی قانونی حیثیت کے تعین اور توثیق کیلئے سپریم کورٹ میں یہ ریفرنس دائر کیا تھا، کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے معاونت کیلئے فروغ نسیم، سلمان اکرم راجا اور زاہد ابراہیم وامائیکس کیورائے ( عدالت کا دوست) مقررکیا تھا۔