2022ء میں کھیلوں کے حوالے سے پاکستانی شائقین کیلئے خوشی اور مایوسی کا سال رہا

December 31, 2022

کھیل پاکستانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے کئی نامور کھلاڑی عطا کیے ہیں اور ہر کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی کھیل میں کوئی نہ کوئی کھلاڑی ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جبکہ کرکٹ ملک میں سب سے مقبول ہے۔

اس کے علاوہ، ملک میں اسکواش، کبڈی، باکسنگ، اسنوکر، والی بال پولو اور دیگر کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں، جن میںکھلاڑی اپنی صلاحیتوںکے جوہر دکھاکر ملک کا نام روشن کرنے کی کوشش کرتےرہتے ہیں۔ 1994ء پاکستانی کھیلوںکی تاریخ میں ایک ایسا سال تھا جب ملک بہ یک وقت ہاکی، کرکٹ، اسکواش اور اسنوکر میں ورلڈچیمپئن تھا۔

حالیہ برسوں کے دوران، ملک میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں بہت سے قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستانی مرد اور خواتین کھلاڑی شرکت کرتے رہے ہیں۔ ذیل میں2022ء کے اہم مقابلوں اور پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کا ذکر کیا جارہا ہے۔

ٹی20ورلڈکپ

2021ء میں پاکستان کی جانب سے ٹی 20ورلڈکپ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، تاہم تاریخ میں ایک بار پھر اس کا سفر سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کی صورت تمام ہوا۔ پاکستان کی اس کارکردگی کی بناء پر شائقین کرکٹ کو توقع ہوچلی تھی کہ 2022ء میں ہونے والے ٹی 20ورلڈکپ کی ٹرافی پاکستان اٹھانے میںکامیاب ہوسکتا ہے۔

ورلڈکپ کا آغاز دو روایتی حریفوں ’پاکستان اور بھارت‘ کے مابین میچ سے ہوا۔ پاکستان نے 2021ء میںبھارت کو یک طرفہ مقابلے کے بعد 10وکٹوں سے شکست دی تھی، جو کہ کسی بھی ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف پہلی کامیابی تھی۔

پاکستانی شائقین کو امید تھی کہ ان کی ٹیم 2022ء میں بھی بھارت کے خلاف اسی کارکردگی کو دہرائے گی۔ غالباً ایسا ہو بھی جاتا لیکن بھارت کے مایہ ناز بیٹسمین ویرات کوہلی نے اپنی زندگی کی بہترین اننگز کھیل کر اپنے ملک کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ متوقع جیتے ہوئے میچ میں شکست کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کا مورال ڈاؤن ہوگیا، جس کا خمیازہ پاکستان کو زمبابوے کے ہاتھوں اَپ سیٹ شکست کی صورت اٹھانا پڑا۔ پے درپے دو شکستوں کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں معدوم پڑگئیں۔

ایسے میں شروع ہوا ’اگر مگر کا کھیل‘ یعنی کہ فلاں ٹیم اس کو ہرا دے، وہ فلاں سے جیت جائے۔ ساتھ ہی 1992ء ورلڈکپ سے مماثلت کے چرچے اور اس حوالے سے مثالیں بھی پیش کی جاتی رہیں۔ جنوبی افریقا کے خلاف بھارت کی شکست کے بعد پاکستان کے سیمی فائنل میںپہچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوگئے تھے لیکن 6 نومبر کی صبح پاکستانیوں کو یہ دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی کہ عالمی مقابلوں میں نیدرلینڈ جیسی نووارد ٹیم نے جنوبی افریقا کی مضبوط ٹیم کو اَپ سیٹ شکست سے دوچار کردیا۔

اس کے بعد پاکستان کو سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے محض بنگلہ دیش کو ہرانا تھا، جوکہ اس نے بآسانی ایسا کیا۔ سیمی فائنل میں پاکستان کا سامنا 1992ء ورلڈکپ کی طرح نیوزی لینڈ سے ہوا ، جس میں نیوزی لینڈ کو ایک بار پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ دوسرے سیمی فائنل میںبھارت نے انگلینڈ سے شکست کھائی۔ یوں 30سال بعد پاکستان اور انگلینڈ ایک بار پھر آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئے۔

مگر مجموعی طور پر بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس بار شکست پاکستان کا مقدر بنی۔ پاکستان کے گیندبازوں نے اپنے طور پر خوب جان ماری لیکن جب قسمت ساتھ نہ ہو تو گیند بلے کے پاس سے گزر جاتی ہے اور رن آؤٹ کے لیے گیند وکٹ کے پاس سے گزر جاتی ہے۔ ویسے تو تمام ہی گیند بازوں نے بہت عمدہ گیند بازی کا مظاہرہ کیا لیکن نسیم شاہ کا اسپیل اس فائنل کی جان تھا۔

دوسری جانب، فائنل میںشاہین شاہ آفریدی کا کیچ پکڑتے ہوئے زخمی ہوجانا بھی ٹیم کے لیے دھچکے کا باعث بنا کیونکہ اس کے بعد وہ اپنے اوورز پورے نہیں کراسکے اور پارٹ ٹائم باؤلر پر انگلینڈ کے بلے بازوں نے رنز بناکر اپنی ٹیم کو ٹرافی کا حقدار بنایا۔

ایشیا کپ

ورلڈکپ سے قبل متحدہ عرب امارات میں ٹی20کے فارمیٹ پر ایشیاکپ کھیلا گیا تھا، جس میں پاکستان اور بھارت کے مابین دو میچ کھیلے گئے۔ پہلے میچ میں پاکستان کو ناکامی ہوئی جبکہ دوسرے میں بھارت پاکستان کے ہاتھوں شکست کھاکر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔ پاکستان اور سری لنکا فائنل میں مدمقابل آئے لیکن پاکستان ٹرافی اپنے نام کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس شکست کے بعد سے کپتان بابراعظم کو ایک بار پھر کپتانی کے حوالے سے کافی تنقید کا سامنا رہا۔

غیرملکی ٹیموں کی پاکستان آمد

2009ء میں سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا، جسے بحال ہونے میں کافی وقت لگا۔ دنیا کی کئی نامور ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کیا مگر حکومت پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششوں سے غیرملکی ٹیموں نے پاکستان آنا شروع کیا اور اب بھارت کے علاوہ دنیا کی تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کرچکی ہیں۔ بھارتی حکومت سے کھیل میںسیاسی مفادات اور جواز کی بنا پر اپنی ٹیم کو باہمی سیریز کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی۔

٭ مارچ میں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے 24سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں مہمان ٹیم نے 3ٹیسٹ ، 3ون ڈے اور ایک ٹی 20میچ کھیلا۔ پہلے ٹیسٹ میچ کھیلے گئے، جس میں تیسرے ٹیسٹ میں کامیابی کی بدولت آسٹریلیا نے سیریز 0-1سے اپنے نام کی۔ اس کے بعد دونوں ٹیموں کے مابین 3ون ڈے پر مشتمل سیریز کھیلی گئی، جس میں پاکستان 1-2سے کامیاب رہا۔ دونوں ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے واحد ٹی20میچ میں آسٹریلیا نے کانٹے دار مقابلے کے بعد پاکستان کو 3وکٹ سے شکست دی تھی۔

٭ دو ماہ بعد یعنی جون میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 3ون ڈے کھیلنے پاکستان آئی، جس میں پاکستان نے وائٹ واش کرتے ہوئے مہمان ٹیم کو شکست سے دوچار کیا۔

٭ انگلینڈ کی ٹیم نے17سال بعد سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔ ویسے تو یہ دورہ 2021ء میں ہونا تھا مگر انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے پاکستان میں سکیورٹی خدشات کو جواز بنا کر اپنی مین اور ویمن ٹیموں کے دورے منسوخ کر دیے تھے۔ تاہم، خود انگلینڈ میں اس دورے کو منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے اپنی مین ٹیم دو حصوں میں پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا۔ یوں ٹی20ورلڈکپ سے قبل انگلینڈ کی ٹی20ٹیم 7میچ کھیلنے پاکستان آئی۔

اس سیریز میں شائقین کرکٹ کو اچھے مقابلے دیکھنے کو ملے۔ پانچویں ٹی20میں کامیابی کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان یہ سیریز جیت جائے گا لیکن اگلے دو میچوں میں انگلینڈ نے بہتر کارکردگی دکھاکر سیریز 4-3سے اپنے نام کرلی۔ پھر ورلڈکپ کے بعد انگلینڈ نے تین ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے پاکستان کا رُخ کیا۔

دونوںٹیموں کے درمیان پاکستان میںکھیلی جانے والی اس ٹیسٹ سیریز میں انگلینڈ نے میزبان ٹیم کو 0-3سے وائٹ واش شکست سے دوچار کرکے سیریز جیت لی۔ تینوں ٹیسٹ میچوں میں مہمان ٹیم نے زبردست کھیل کے ذریعے پاکستان کو شکست دی، گو کہ ان میچوں میں کچھ مواقع ایسے بھی آئے جب میزبان ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں تھی لیکن وہ اعصاب کی جنگ ہارگئی اور یوںتاریخی شکست پاکستان کا مقدر بنی۔

٭ اس وقت نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے، جس میں وہ دو ٹیسٹ اور تین ون ڈے کھیلے گی۔ 2021ء میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آ چکی تھی لیکن راولپنڈی میں پہلے ون ڈے انٹرنیشنل سے کچھ دیر قبل سیکیورٹی خدشات ظاہر کر کے اس نے واپس وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا، جس نے نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ بلکہ حکومت پاکستان کو بھی حیران کر دیا تھا۔

پاکستان کی جانب سے نیوزی لینڈکرکٹ ٹیم کی فول پروف سیکیورٹی کے بارے میں بتایا گیا، تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا تھا۔ بعد میں نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو اپنے اس فیصلے پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سخت مؤقف کے بعد اس نے 2022ء میں اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

٭ ویمن کرکٹ میں سری لنکا اور آئرلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ سری لنکا وومن ٹیم نے ون ڈے میں 1-2 سے شکست کھائی جبکہ ٹی20 میں 0-3 سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آئرلینڈ سے ون ڈے سیریز میں پاکستان کو 0-3 سے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ آئرلینڈ نے ٹی20سیریز 2-1سے جیت لی۔

کامن ویلتھ گیمز

کسی بھی کھلاڑی کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ نہ صرف کھلاڑی بلکہ کھیل سے دلچسپی رکھنے والے شائقین بھی کھلاڑیوں کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی کھلاڑی کسی ایسے کھیل میں بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کررہا ہو جو کہ ملک میں زیادہ مقبول نہیںتو پوری قوم کو تجسّس ہوتا ہے کہ آخر وہ کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا اور کیا وہ کوئی ٹرافی یا میڈل اپنے نام کرپائے گا بھی کہ نہیں۔

کچھ ایسے ہی جذبات ہم نے 2022ء میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میںہونے والے کامن ویلتھ گیمز کے دوران دیکھے۔ پاکستان کے لیے کامن ویلتھ گیمز اس لحاظ سے یادگار رہا کہ 52سال بعد پاکستانی دستے نے ان مقابلوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان، دو سونے کے تمغوں سمیت کُل 8 تمغے جیتنے میں کامیاب رہا اور گیمز میں 18ویں پوزیشن حاصل کی۔ 1970ء میں پاکستان نے 4 سونے کے تمغوں سمیت مجموعی طور پر 10 تمغے جیتے تھے۔

پاکستان کے 68 ایتھلیٹس پر مشتمل دستے نے 12 مختلف کھیلوں میں شرکت کی۔ پاکستان کی جانب سے نوح دستگیر بٹ نے ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کے لیے پہلا سونے کا تمغہ جیتا اور اس کے بعد ارشد ندیم نے ایتھلیٹکس کے ایونٹ جیولن تھرو میں ریکارڈ تھرو کرکے اپنے ملک کو دوسرا سونے کا تمغہ دلایا۔

دوسری جانب پاکستانی پہلوانوں کی کارکردگی بھی نمایاں رہی، شریف طاہر، انعام بٹ اور زمان انور چاندی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے۔ دیگر دو پہلوانوں عنایت اللّٰہ اور علی اسد نے کانسی کے تمغے جیتے جبکہ جوڈوکا میں شاہ حسین شاہ بھی کانسی کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے میں کامیاب ہوئے۔ نوح دستگیر بٹ نے 109کلوگرام سے زائد ویٹ کیٹیگری میں مجموعی طور پر 405 کلوگرام وزن اٹھا کر نہ صرف سونے کا تمغہ حاصل کیا بلکہ کامن ویلتھ گیمز کا نیا ریکارڈ بھی بنایا۔ ’ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹس‘ میں ارشد ندیم پاکستان کی تاریخ کے صرف تیسرے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا۔

ان سے قبل،1954ء میں محمد اقبال نے ہیمر تھرو اور 1962ء میں غلام رازق نے 120گز ہرڈلز میں سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ ارشد ندیم نے کامن ویلتھ گیمز میں جویلین تھرو میں گولڈ میڈل جیتنے کے ساتھ ساتھ 90میٹر سے زائد تھرو کرنے والے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے پہلے اور ایشیا کے دوسرے ایتھلیٹ ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ تائیوان کے چاؤ سن چینگ نے 2017ء میں 91.36 میٹر کی تھرو کی تھی۔ اپنی پانچویں باری میں ارشد ندیم کی 90.18میٹر کی تھرو 2022ء کی تیسری بہترین تھرو بھی رہی۔ اینڈرسن پیٹرز 93.07 میٹر اور جیکب ویڈلیک 90.88 میٹر کی تھرو کے ساتھ ان سے آگے رہے۔

سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ

ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، جس میں کبھی پاکستان کا ڈنکا بجا کرتا تھا مگر اب کئی برس سے یہ رو بہ زوال ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکومتی عدم توجہی، ہاکی فیڈریشن کی نااہلی، عالمی معیار کی سہولتوں کا فقدان اور کئی اداروں کا اپنی ہاکی ٹیمیں ختم کرنا ہے۔ ان تمام اور دیگر وجوہات کی بنا پر اب نوجوانوں کو اس کھیل میں اپنا مستقبل نظر نہیں آتا۔ مگر اس سب کے باوجود پاکستان ہاکی ٹیم کسی نہ کسی سطح پر آگے آنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

اس کی ایک مثال 2022ء میں کھیلا جانے والا سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ ہے، جس میں پاکستان نے تیسری و چوتھی پوزیشن کے میچ میں سنسنی خیز مقابلے میں ایشین چیمپئن جاپان کو 3-5سے شکست دے کر 11 سال بعد ایونٹ میں وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بنائی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کے 9باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں نے اس ایونٹ سے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کیا اور شاندار کارکردگی دکھائی۔ اس سے قبل پاکستان نے 2011ء میں آسٹریلیا کے مدمقابل ایونٹ کا فائنل کھیلا تھا۔

انٹرنیشنل بلیئرڈ اینڈ اسنوکر فیڈریشن ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ کے فائنل میں پاکستان کے نوجوان کیوئسٹ احسن رمضان ایرانی نے عامر سرکوش کو 6-5 سے شکست دے کر کم عمر ترین ورلڈ اسنوکر چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

اسنوکر کی عالمی چیمپئن شپ

2022ء کی عالمی اسنوکرچیمپئن شپ پاکستان کے 16سالہ کیوسٹ احسن رمضان نے جیتی۔ وہ اسنوکر کے عالمی چیمپین بننے والے دنیا کے تیسرے کم عمر ترین کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے فائنل میں ایران کے عامر سرکوش کو شکست دی۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی اس چیمپئن شپ کے فائنل میں احسن رمضان نے اپنے حریف کو پانچ کے مقا بلے میں چھ سیٹ سے شکست دی۔ احسن رمضان نے سیمی فائنل مقابلے میں اپنے ملک سے ہی تعلق رکھنے والےدفاعی چیمپئن محمد آصف کو شکست دی تھی۔ پاکستان نے چوتھی مرتبہ ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیتا ہے۔ اس سے قبل محمد آصف دو بار اور محمد یوسف ایک بار ورلڈ چیمپئن رہ چکے ہیں۔

پاکستان فٹبال اور فیفا ورلڈکپ

پاکستان فٹبال فیڈریشن میں سیاسی مداخلت، من مانی بھرتیوں اور کھیل کے فروغ پر توجہ نہ دینے سے یہ کھیل ملک میںفروغ نہ پاسکا۔ فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا کی جانب سے 2021ء میں پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) کے معاملات میں ’بیرونی مداخلت‘ پر پاکستان کی رکنیت معطل کر دی گئی تھی۔ فیڈریشن پر پابندی کے باعث ملک کی نیشنل فٹبال ٹیم کو بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کی ممانعت تھی۔ تاہم، خوش آئند بات یہ ہے کہ جون 2022ء میںفیفا کی جانب سے یہ پابندی اٹھالی گئی۔

ایسا نہیں ہے کہ ملک میںفٹبال کا ٹیلنٹ نہیں ہے، کراچی کے علاقے لیاری اور ملیر میں کافی باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں۔ تاہم سہولتوں، حکومتی توجہ اور اسپانسرز کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ کھیل پنپ نہیںسکا۔ بہرحال، عالمی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم نہ سہی مگر پاکستان میں بنی فٹبال ضرور میدان میں ادھر سے ادھر گھومتی نظر آتی ہے۔ قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈکپ میںسیالکوٹ میں تیار کردہ جدید فٹبال استعمال کیے گئے۔

دنیا بھر کے شائقین کی طرح پاکستانی شائقین فٹبال بھی قطر میں ہونے والے ورلڈکپ اور اس میں پے درپے ہونے والی کئی اپ سیٹس سے خوب محظوظ ہوئے۔ سب سے پہلی اَپ سیٹ شکست سعودی عرب کے ہاتھوں اسٹار لینول میسی کی ارجنٹینا کو ملی۔ جاپان نے جرمنی اور اسپین جیسی بڑی ٹیموں کو شکست دی۔ اس کے بعد تیونس نے دفاعی چیمپئن فرانس کو ہرایا۔ ٹورنامنٹ میں مراکش کی ٹیم نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔

وہ فٹبال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی افریقی اور مسلم اکثریتی عرب ٹیم بن گئی۔ یہ ایک تجربہ کار ٹیم تھی، جس میں کئی ہائی پروفائل کھلاڑی شامل تھے۔ اس نے اپنے گروپ میں بیلجیم کو زیر کیا جبکہ آخری 16 ٹیموں کے راؤنڈ میں 2010ء کی ورلڈ چیمپئن اسپین کو ہرایا، پھر کوارٹر فائنل میں اسٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کی پرتگال کو گھر بھیجا۔

لیکن سیمی فائنل میںان کے سفر کا اختتام ارجنٹینا کے ہاتھوں 0-2کی شکست کی صورت ہوا۔ 36سال کے طویل وقفے کے بعد فٹبال ورلڈکپ ایک بار پھر ارجنٹینا کے نام رہا۔ فائنل انتہائی سنسنی خیز رہا، دفاعی چیمپئن فرانس نے ہر بار ارجنٹینا کی برتری کو ختم کیا۔ فرانس کی جانب سے کائلیان ایمباپے نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی ٹیم ٹائٹل کا دفاع کرنے میںناکام رہی۔

سینٹرل ایشن والی بال چیمپئن شپ

کھیلوںمیں پاکستانیوں کے لیے ایک اور مسرت کا مقام اس وقت آیا جب لاہور میں کھیلی جانے والی سینٹرل ایشین والی بال چیمپئن شپ کے فائنل میں پاکستان نے سابقہ ایشین چیمپئن ایران کو ہرا کر ٹائٹل جیت لیا۔17سال کے طویل وقفے کے بعد پاکستان میں پہلی بار والی بال کے پانچ ملکی مقابلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سینٹرل ایشین والی بال چیمپئن شپ میں پاکستان کے علاوہ ایران، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان نے شرکت کی۔ فائنل میں پاکستان اور سابقہ ایشین چیمپئن ایران مدمقابل تھے۔

دونوں ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے فائنل میں کو پاکستان کو 3-1سے کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان نے ایران کے خلاف پہلے دو سیٹس میں شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے 16-25اور 17-25سے کامیابی حاصل کی۔ تیسرے سیٹ میں بھی ایک موقع پر پاکستان نے برتری حاصل کررکھی تھی لیکن ایران نے کھیل میںواپس آتے ہوئے 23 کے مقابلے میں 25پوائنٹس سے کامیابی اپنے نام کی۔

چوتھے سیٹ میں دونوں ٹیموں کے مابین زبردست مقابلہ دیکھنے کو ملا، تاہم پاکستان نے یہ سیٹ 20- 25سے جیت کر سینٹرل ایشین والی بال چیمپئن شپ کے فائنل میں جیت کو یقینی بنایا۔ تیسری پوزیشن کے میچ میں بنگلادیش نے سری لنکا کو شکست دی۔