پارلیمان میں خواتین کا احترام

June 12, 2016

چند روز پہلے ملک کے سب سے معتبر اور باوقار ادارے قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپوزیشن کی ایک خاتون رہنما کے بارے میں جو غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کئے اسے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بالاتفاق شائستگی کی حدود سے تجاوز قرار دیا ہے اور خود اس موقر ادارے کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنی پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس پر جس شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے پوری قوم کے جذبات کو صدمہ ہی نہیں پہنچا بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارے ایک قومی ادارے کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ وطن عزیز میں مردانہ بالادستی کا غیر اسلامی رویہ معاشرے کے رگ و پے میں جس طرح سرایت کر چکا ہے اس کے مظاہر آئے دن مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ کبھی اسے قتل غیرت کا نام دیا جاتا ہے تو کبھی تیزاب گردی کی صورت میں ان کا اظہار ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی ملک کے منتخب نمائندوں کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کے افراد کے کردار اور گفتار کو 20 کروڑ عوام کے لئے تعمیر سیرت کے اعتبار سے ایک مثال ہونا چاہئے لیکن اگر اسکے اپنے نمائندے ہی خواتین کو اس طرح بے توقیر کرنے لگیں گے تو عامۃ الناس کیا کچھ کر گزریں گے اس کا تصور ہی جسم و جان کے رشتوں کو لرزا دینے کیلئے کافی ہونا چاہئے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ دشنام آمیز رویہ اختیار کرنے والی شخصیت کو بھی بالآخر خود ہی اس کا احساس بھی ہو گیا اور اس نے ملفوف انداز میں اسکی زبانی اور تحریری معافی بھی مانگ لی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معافی مانگنے کیلئے جو گول مول انداز بیان اختیار کیا ہے اسے کسی صورت میں معافی قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ خواتین کا احترام ایک اخلاقی و قانونی تقاضا ہی نہیں اسلامی تعلیمات کی روح بھی ہے اسلئے اگر خواجہ صاحب اسی دو ٹوک انداز میں اس پر معذرت کرتے جس طرح انہوں نے ایک خاتون رہنما کی توہین کی تھی تو اس سے انکے وقار میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتا۔