’’ڈیماگاگ‘‘

January 26, 2023

نگراں حکومت قائم ہونے کے بعد سرکاری افسروں کی ازسرِ نو تقرری اور تبادلے معمول کی کارروائی کا حصہ تصور ہوتے ہیں مگر دانشورانِ عصرکا کمال یہ ہے وہ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے قطرے کو دجلہ اور ذرے کو صحرا بنا کر پیش کرنے میں پس وپیش نہیں کرتے ۔محسن نقوی نے نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اُٹھانے کے بعد ایسا ہی ایک حکم جاری کیا تو کسی دانشور نے تبصرہ فرمایا ’’محسن نقوی کا پہلا حکم نامہ ۔بلال صدیق کمیانہ کو سی سی پی او لاہور لگادیا گیا۔جوبقول اس دانشور کے 25مئی کو ریاستی تشددکا انچارج تھا۔مشرقی پاکستان کے صحافی تفضل مانک میاں نے لکھا ہے کہ 25مارچ1971ء کو جب آرمی ایکشن شروع ہوا توپہلے ڈھاکہ میں ظالم ترین افسر کو ایس ایس پی لگایا گیا۔‘‘تفضل حسین المعروف مانک میاں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی تھے۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ کے صدر منتخب ہوئے ،کئی بار جیل گئے ،معروف بنگلہ اخبار ’’اتفاق‘‘ان کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا۔انہوں نے اپنی تصنیف ’’پاکستانی سیاست کے 20سال‘‘ میں قطعاً ایسی کوئی بات نہیں لکھی اوراہم ترین بات یہ ہے کہ 25مارچ 1971ء کو جب ’’آپریشن سرچ لائٹ ‘‘کا آغاز ہو اتو انہیں فوت ہوئے دو سال ہونے کو تھے۔تفضل حسین المعروف مانک میاں یکم جون 1969ء کو راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے تو انہیں ڈھاکہ لے جاکر دفنایا گیا۔ ویسے بھی مشرقی پاکستان میں حالات نے جو رُخ اختیار کرلیا تھا ،اس کے بعد کسی ’’ظالم ترین پولیس افسر‘‘کی تعیناتی سے کوئی فرق نہیں پڑسکتا تھا۔فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی پولیس تتر بتر ہوچکی تھی ۔میجر جنرل خادم حسین راجہ جو وہاں تعینات 14ویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے ان کی خود نوشت ’’A Stranger in my own country‘‘ میں بیان کی گئی روداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس غیر موثر ہوچکی تھی۔جب 4مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمان نے احتجاج کی کال دی تو آئی جی پولیس نے مارشل لا ہیڈ کوارٹر آنا چھوڑ دیا اور شیخ مجیب کو رپورٹ کرنا شروع کردی۔ایک اور پولیس افسر مامون محمود جو ڈھاکہ میں تعینات تھے، انہوں نے مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے انکار کردیا تو ان کا تبادلہ کرکے میمن سنگھ بھیج دیا گیا۔انہوں نے سویلین ہلاکتوں کے خلاف بطور احتجاج اپنے گھر پر سیاہ پرچم بھی لہرایا ۔آپریشن سرچ لائٹ کے وقت وہ بطور ڈی آئی جی راجشاہی میں تعینات تھے ،26مارچ 1971ء کی شام وہ گھر سے نکلے مگر لوٹ کر واپس نہ آئے۔ مسلسل گمشدگی کے بعد آخر کار انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپریشن سرچ لائٹ کے بنیادی اہداف میں سے ایک ٹاسک یہ بھی تھا کہ پولیس کو غیر مسلح کردیا جائے تو ایسی صورت میں کسی ’’ظالم ترین افسر‘‘کی تعیناتی کی کیا ضرورت تھی۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے سیاسی منظر نامے پر دوشخصیات کا غلبہ تھا، شیخ مجیب الرحمان اورذوالفقار علی بھٹو۔ دونوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ بہت اعلیٰ پائے کے خطیب اورعوام کے نبض شناس تھے۔ دونوں کی شعلہ بیانی کا یہ عالم تھا کہ مجمع پر سحر طاری ہوجاتا۔مگرہر دو شخصیات میں مقررانہ صلاحیت کے سوا کوئی مشابہت و مماثلت نہ تھی۔ شیخ مجیب کی تمام تر صلاحیتیں فن تقریر تک محدود تھیں مگر بھٹو ہمہ گیروہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ مشرقی پاکستان بحران کے ایک اہم کردار میجر جنرل(ر)رائو فرمان علی جو سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے بعد ازاں ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ شیخ مجیب کو ’ہینڈل‘ کیا جا سکتا تھا۔ وہ ایک بہت اچھا مقرر تھا جس کو انگریزی میں ’’Demagogue‘‘کہتے ہیں۔ ایسا شخص جس میں عقل کی کمی ہو لیکن تقریر بہت اعلیٰ کرتا ہو۔عوام کو اِدھر سے اُدھر لے جائے۔ بہت ہی اعلیٰ تقریر کرتا تھا لیکن وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا۔

شیخ مجیب جنہیں ’’ڈیماگاگ‘‘قرار دیا جاتا ہے، ان کی تقریروں نے بنگالیوں میں نئی روح پھونک دی۔ان کے ایک جملے نے ایسا بیانیہ متشکل کیا جس کا ریاست کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا اور وہ جملہ تھا ’مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے‘۔ محولابالا دانشور جنہوں نے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے موجودہ صورتحال کو مشرقی پاکستان میں درپیش حالات سے تشبیہ دینے کی کوشش کی ،وہ دراصل سابق وزیراعظم عمران خان کے حلیفِ سخن ساز ہیں۔ جناب عمران خان کے سحر میں مبتلا دانشورانِ عصر جن کا رزق ان کی مقبولیت سے وابستہ ہے ،وہ کبھی بھٹو سے ان کا موازنہ کرتے ہیں تو کبھی انہیں قائداعظم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یوں تو عمران خا ن اس قدر منفرد شخصیت کے حامل ہیں کہ ان کا ماضی کے کسی بھی سیاستدان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر اس دور کے رہنمائوں سے تقابل کرنا ہو تو میری دانست میں انہیں موجودہ دور کا شیخ مجیب کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ وہ ’’ڈیماگاگ‘‘ کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔عمران خان ایسے شعلہ بیاں مقرر ہیں کہ چاہیں تو پانی میں آگ لگادیں، چینی کہاوت ہے کہ آگ کو کاغذ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا مگر وہ زور خطابت کی بنیاد پر یہ کارنامہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ شیخ مجیب کی طرح بیانیہ بنانے اور اپنے مقلدین میں اسے حرفِ آخر کے طور پر پیش کرنے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی پیروی کرنے والے دانشور نہ صرف ماضی کی قد آور شخصیات میں ان کی مشابہت کی سچی جھوٹی روایات ڈھونڈتے ہیں بلکہ حالات وواقعات کے تانے بانے ماضی سے جوڑنے کیلئے دروغ گوئی سے بھی گریز نہیں کرتے۔حاصل کلام یہ ہے کہ محض سیاستدان ہی ’’ڈیماگاگ‘‘نہیں ہوتے ،تحریر وتقریر کے فن میں طاق ان کے مقلدین بھی ’’ڈیماگاگ ‘‘ہوسکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)