بابِ پاکستان کی یاد گار کی نیلامی

January 29, 2023

وہ جگہ جہاں قیام پاکستان کے وقت پہلا مہاجر ریل گاڑی سے اترا تھا۔یہ پہلا کیمپ تھا جہاں مہاجرین آئے تھے ۔پاکستان بننے کے فوراً بعد جب یہ سوچا گیا کہ پاکستان بننے کی کوئی یادگار بھی ہونی چاہئے تو اس کیلئےوالٹن کا یہی کیمپ فائنل کیا گیا کہ یہ جگہ پاکستان کا پہلا دروازہ ہے یہاں یادگار ہونی چاہئے ۔یہ بات ذہن میں رکھئے کہ مینار پاکستان ،پاکستان بننے کی یادگار نہیں وہ انیس سو چالیس میں منظور کی جانے والی قرارداد پاکستان کی یادگار ہے ۔ پاکستان بننے کی یادگار یہی ’’بابِ پاکستان ‘‘ ہےمگر مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے سرمایہ داروں کے ہاتھ یہ یادگار بھی فروخت کردی ہے ۔

میرا باب ِ پاکستان سے پہلا تعلق اس وقت بنا تھا جب اس کے ڈیزائن کیلئے انعامی مقابلہ ہوا تھا ۔وہ میرے دوست امجد مختار چوہان نے جیتا تھا ۔میں اس وقت سے مسلسل اس یادگار کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں ۔اس کے ڈیزائن میں کلمہ طیبہ کے اردو گرد خیمے بنائے گئے تھے کہ جب پاکستان وجودمیں آیا تھا تو ہمارے بزرگوں نے یہاں انہی خیموں میں قیام کیا تھا ۔ یہیں قائداعظم خود آئے تھے اور اس طویل و عر یض خیمہ بستی میں مہاجرین کے ساتھ وقت گزارا تھا۔یہ یادگار اس لئے بنائی جارہی تھی کہ آنے والی نسلوں کو علم ہو سکے کہ ایک نسل اس ملک کیلئے اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر ان خیموں میں بے یار ومدد گار پڑی رہی ۔لٹے پٹے قافلوں کو اسی جگہ پہلی پناہ ملی تھی ۔یہاںشہیدوں کے جنازے پڑھے گئے ۔ یہیں زخمیوں کا علاج ہوا۔افسوس کہ یہ نیلام ہونے والی یادگار تحریک پاکستان کے شہیدوں ، گمنام کارکنوں اور تاریخ عالم کی سب سے بڑی ہجرت کے جانثاروں کی اکلوتی قومی یادگار تھی ۔یہاں قیام پاکستان کے حوالےسے سب سے بڑا میوزیم بنایا جانا تھا ۔ یہاں تاریخ پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری اور آرٹ گیلری بننا تھی،آڈیٹوریم بننا تھا ،بہت ہی خوبصورت پارک بنایا جانا تھا۔ہر وہ چیز تھی جو ہمیں ہمارے زندہ و تابندہ ماضی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ۔اس یادگار کاتقریباً ساٹھ فیصد کام برسوں پہلے مکمل ہو چکا تھا مگر وہ لوگ جن کی نظریں اس زمین پر تھیں انہوں نے اسے پوراہونے ہی نہیں دیا۔ یہ بات برسوں سے طے تھی کہ ایک سو چونسٹھ ایکٹر پر باب ِ پاکستان بنایا جائے گا ، اس کی جتنی تعمیرہوئی وہ اتنی ہی زمین کے ڈیزائن کے مطابق ہوئی ۔ماضی میں جو 77ایکٹر زمین عباس پولیس لائنز کیلئے مختص تھی ۔وہ بھی باب پاکستان کو دی گئی کہ اس یادگار کا ڈیزائن ایک سو چونسٹھ ایکٹر کے مطابق ہے ۔سو اس میں کمی بیشی نہیںہونی چاہئے ۔پنجاب ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے اس اراضی کا انتظامی کنٹرول اس شرط پر متعلقہ ادارے کو دیا تھا کہ باب پاکستان کے علاوہ اسے کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔حیران ہوں کہ واضح شرائط کے باوجود وہاں اونچے اونچے پلازے بنائے جانے لگے ہیں ۔ لمبی لمبی مارکیٹیں کھڑی کی جانے لگی ہیں ۔بزنس کیلئے کہیں بھی کوئی شہر آباد کیا جائے ،مجھے یامیرے جیسے کسی شخص کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے مگر بابِ پاکستان کی زمین ہی کیوں؟ پاکستان میں ،لاہور میں کیااور کوئی زمین باقی نہیںرہی ۔قانون کیوں خاموش ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہو گیاکہ باب ِ پاکستان کیلئے مختص 936کنال میں سے800 سو کنال سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی کی وساطت سے فروخت تک پہنچ گئی ۔شنید ہے کہ پانچ پلاٹ بک چکے ہیں اوریہ پانچ کمرشل پلاٹ 21.588 ارب روپے میں نیلام کر دیئے گئےہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فروری دوہزار اکیس میں قانون سازی کی گئی کہ سینٹر ل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی پنجاب کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے تاکہ والٹن کا تاریخی ایئرپورٹ اور اس سے ملحقہ باب پاکستان کی 936 کنال میں سے 800 سو کنال اراضی پر کمرشل تعمیرات کرکے ملازمتیں اور حکومت کیلئے فنڈ ز جمع کئے جاسکیں اور چند ماہ ہی میں زمین بیچ بھی دی گئی۔ قانون سازی کرتے ہوئے یہ لوگ بھول گئے کہ یہاں بے شمارشہیدوں کی قبریں ہیں مگر سرمایہ کاروں کے سینے میں دل نہیں ہوتے ۔

جنرل ضیا کے دور میں اس کا آغاز ہوا تھا۔گورنر جنرل غلام جیلانی نے اس کی تجویز دی تھی جسے جنرل ضیاالحق نے منظور کیا تھا۔پرویزمشرف کے دور میں یہاں زور و شور سے کام شروع ہوا تھا ان کے جانے کے بعد اس پرکام روک دیا گیا۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی یہاں اپنی تختیاں لگوائی تھیں مگر اسے بنوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے ۔ سعد رفیق نے بھی کوشش کی تھی مگر اتنے اہم ترین لوگوں کی کاوشوں کا کیا انجام ہوا کہ باب پاکستان ہی فروخت ہو گیا ۔

میں نے ایک ڈرامہ دیکھا تھا جس میں ایک شخص شالا مار باغ فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس نے اس کی زمین کی ملکیت کے جعلی کاغذات تیار کئے ہوئےہوتے ہیں۔ اسے ایک اور جعل سازمشورہ دیتا ہے کہ اس کی بجائے آئو مینار پاکستان بیچتے ہیں ۔وہ زیادہ آسانی سے فروخت کرلیں گے۔ شالا مار باغ بہت قدیم ہے۔ مینار پاکستان تو ابھی بنا ہے اس کی زمین کے سوسوا سوسال پرانے کاغذات تیار کرلیتے ہیں۔ مجھے باب ِ پاکستان کی زمین کی فروخت کے باب میں وہ مزاحیہ ڈرامہ بار بار یاد آیا اور میں سوچنے لگا کہ ہم کیسے زیرک لوگ ہیں کیسی کیسی ناممکن باتوں کو ممکن بنا لیتے ہیں۔ بہر کیف میں ایک پاکستانی کی حیثیت سےچیف جسٹس آف پاکستان سے از خود نوٹس لینے کی درخواست تو کر ہی سکتا ہوں۔