حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!

January 30, 2023

کہتے ہیں کہ سری لنکا تین ماہ پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا لیکن اس کا اعلان تین ماہ بعد کیا گیا ۔ ڈیفالٹ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نےبیل آئوٹ پیکیج دینے کیلئے شرط عائد کی کہ سری لنکا دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرے اور فوج کا حجم کم کرے ۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ سری لنکا کی فوج کو نصف کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے ۔ اس فیصلے پر عمل درآمدکیلئے سری لنکا کی حکومت نے پہلے مرحلے میں فوجی اہلکاروں کی 16000 ( سولہ ہزار ) اسامیوں کو ختم کر دیا ہے اور نئے بجٹ میں ان کیلئے پیسے بھی نہیں رکھے ہیں ۔ حکومت نے فوج میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی اسکیم بھی دی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم کئے جا سکیں ۔ ان اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف سے ابھی تک ڈیل نہیں ہوئی ہے ۔ آئی ایم ا یف کو خوش کرنے کیلئے شاید سری لنکا کو مزید اقدامات کرنا پڑیں گے ۔ پاکستان کی طرح سری لنکا کی فوج سے بھی داخلی امور میں بہت مدد لی جاتی ہے ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اسے خصوصی ٹاسک سونپے گئے ۔ فوج سے پولیسنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے ، قدرتی آفات میں بھی فوج ریسکیو اور ریلیف کا کام کرتی ہے ۔ سری لنکا کی سرحدوں کی صورت حال بھی کسی طرح اطمینان بخش نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے باوجود سری لنکا کے معاشی حالات نے اسے مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی افواج کا حجم کم کرے ۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگلے روز اپنے ایک بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ نہ کر جائے اور کہیں پاکستان سے بھی اپنی افواج میں کٹوتی کرنے کا مطالبہ نہ کر دیا جائے ۔ عمران خان نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے ، وہ خدشہ بے جواز نہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ عمران خان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار پی ڈی ایم کی حکومت ہے اور اگر ان کی ( یعنی عمران خان کی ) حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی ۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت ہے اور یہ کہ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کیلئے عالمی طاقتیں عمران خان کو اقتدار میں لائیں تاکہ وہ ان ( عمران خان ) سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرا سکیں ۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے ، اس کی ذمہ داری موجودہ یا پچھلی دو تین سیاسی حکومتوں پر عائد نہیں کی جا سکتی ۔ یہ حالات اس نظام کے منہدم ہو جانے کا نتیجہ ہیں ، جسکے ذریعہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اس ملک کو چلایا ۔ پاکستان کو اس مرحلے تک پہنچانے کیلئےبہت پہلے سے کام ہو رہا تھا ۔ بقول کسے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے ۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق پاکستانی افواج دنیا کی ساتویں طاقتور ترین افواج ہیں ۔ صرف یہی نہیں پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بھی ہے ۔ اس کی معیشت کا اس حال تک پہنچنا انتہائی تشویش ناک ہے ۔ آئی ایم ایف جو ’’ معاشی اصلاحات ‘‘ تجویز کر رہا ہے ، وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنےکیلئےنہیں بلکہ کسی عالمی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے ، جو ورلڈ آرڈر کے تحت چلتا ہے ۔ یہ ورلڈ آرڈر امریکہ اور اس کے حواریوں کا بنایا ہوا ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا ۔ خصوصاً پاکستانی افواج نے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ ایک زمانہ تھا ، جب امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستانی افواج زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ کمیونزم کی بڑھتی پیش قدمی کو روکنے کیلئے پاکستان کو دو عالمی دفاعی معاہدوں میں شامل کیا گیا ۔ یہ دو عالمی معاہدے ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ٹریٹی آرگنائزیشن ( سیٹو ) اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( سینٹو ) یا معاہدہ بغداد تھے ۔ پاکستانی افواج نے اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستانی افواج اگرچہ تنظیم معاہدہ شمالی بحراوقیانوس ( نیٹو ) کا حصہ تو نہیںتھیںلیکن افغانستان میں دو دفعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں میں نیٹو افواج کا بھرپور ساتھ دیا ۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ بڑی افواج بنانے کی حوصلہ افزائی کی اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ پاکستان کو بھارت کا مقابلہ کرنا ہے ، جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کو سیکورٹی اسٹیٹ بننے کی طرف دھکیلا ، جہاں جمہوریت نہ پنپ سکی ۔ پاکستان کو اسی راستے پر چلتے رہنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کا طفیلی بنا دیا گیا ۔ اب آئی ایم ایف سے پاکستان شاید 23 واں پیکیج حاصل کرے گا ، جس کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اتنی بڑی اور مضبوط پاکستانی افواج کی ضرورت نہیں رہی اور اگر نہیں رہی تو کیا یہ بڑی اور مضبوط افواج امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب آئی ایم ایف کی ان شرائط سے مل جائے گا ، جو پیکیج دینے کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں ۔ اگر اس پیکیج میں فوج کا حجم کم کرنے یا دفاعی اخراجات کم کرنے کی شرط نہ لگائی گئی تو اگلے ایک دو سال میں نئے پیکیج کیلئے یہ شرط ضرور ہو گی ۔ خدشہ ہے کہ صرف فوج کا حجم کم کرنے کی شرط نہیں ہو گی ۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی کوئی شرط سامنے آسکتی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ۔ اب ہمیں اعتراف کرنا پڑیگا کہ حالات کے ذمہ دار ہمارے حقیقی حکمران ہیں ، جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ابتدا سے ان کی بنائی گئی غلط پالیسیاں نہ صر ف ملک اور عوام کو بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو دلدل میں دھنساتی چلی گئیں ۔ ہماری عدلیہ ، ہمارا میڈیا ، ہمارے دانشور اور ہمارے سیاست دان شریک مجرمان ہیں ۔ جن سیاست دانوں نے پاکستان کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی ، اس نے اس کی خوف ناک قیمت ادا کی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر کوئی پیسہ کما کے اپنے بچوں کو باہر بھیج رہا ہے لیکن حالات سے فرار ممکن نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے ۔ عوام پر زیادہ معاشی بوجھ ڈالنے کی بجائے ادارے اپنے اخراجات میں رضاکارانہ کمی کریں ۔ ورنہ غریب عوام کی اکثریت تو پہلے ہی حالات کو بھگت رہی ہے ، آزمائش اب کسی اور کیلئے ہوگی۔