کیا انتخابات ہی ملکی مسائل کا حل ہیں؟

January 30, 2023

جمہوریت میں عوام کو انتخاب کا حق تو حاصل ہوتا ہے مگر اس حقِ انتخاب کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دوپین کلرز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ دونوں پیکنگ میں تھی تواسپرین ہی۔جمہوریت یقیناً اس سے کچھ مختلف ہونی چاہئے۔(امریکی مفکر،جیمز بوورڈJames Bovard)اگر ووٹنگ سے تبدیلی لائی جا سکتی تو اسے بھی غیر قانونی قرار دیدیا گیا ہوتا(امریکی مصنفہ ، ایما گولڈ مین)پارلیمانی جمہوریت میں کسی بھی سیاسی بحران سے نمٹنے کا بہترین حل انتخابات ہوا کرتے ہیں ۔اسی سوچ اور فلسفے کے تحت بعض افراد کا اصرار ہے کہ عوام سے رجوع کرکے ایک نیا مینڈیٹ حاصل کیا جائے ۔بظاہر یہ مطالبہ بہت معقول ،قابل عمل اور جائز محسوس ہوتا ہے لیکن تکلف برطرف،ہمیں سیاسی نہیں بلکہ ملکی تاریخ کے سب سے خوفناک معاشی بحران کا سامنا ہے۔یہ بات بظاہر بہت مضحکہ خیزمعلوم ہوتی ہے کہ ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے کیونکہ اس جملے کے بے دریغ استعمال نے اس کی معنویت گنوادی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو ہم تجاہل عارفانہ کی روایتی روش اپناتے ہوئے کہتے ہیں،یہ کونسی نئی بات ہے؟ہم تویہی باتیں سنتے بڑے ہوئے ہیں کہ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے،پہلے کئی بار اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر کوئی حل نکل آیا ۔لیکن یقین کیجئے ،اس بار صورتحال جس قدر گمبھیر اور پریشان کن ہے ،ماضی میں کبھی ایسے برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بدترین معاشی مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا تھا لیکن تب اسلامی ممالک کی پہلی جوہری طاقت بننے کا اعزاز حاصل ہونے کی وجہ سے عرب ممالک نے دل کھول کر امداد دی اور پھر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ ہم پر مہربان ہوگیا تو حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔لیکن اب اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔اسحاق ڈار جنہیں مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ کر لایا اور وزیر خزانہ بنایا گیا تھا ،انہوں نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور سب ذمہ داریاں اوپر والے کے سپرد کردی ہیں ۔ڈالر کو اپنی مرضی سے اُڑان بھرنے کی آزادی ہے،پیٹرول کے نرخ مقررہ مدت سے پہلے ہی بڑھا دیئے گئے ہیں ۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جو بے بنیاد تاویلیں تحریک انصاف کے وابستگان پیش کیا کرتے تھے ،اسی نوعیت کے دلائل مسلم لیگ (ن)کے کارکن دے رہے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ پیٹرول کی مصنوعی قلت کو ختم کرنے کیلئے تین دن پہلے قیمت بڑھائی گئی ۔نہ ملنے سے بہتر ہے مہنگا خرید لیں ۔بہت خوب ! آپ سے پہلے جو سقراط اور بقراط تخت نشین تھے ان کا بھی یہی استدلال تھا۔جب پیٹرول کی فروخت روک دی گئی تو حکومت نے شکست تسلیم کرکے نرخ بڑھا دیئے۔ادویات کی مصنوعی قلت ہوئی تو ایک بار پھر قیمتیں بڑھا دی گئیں تاکہ مہنگی سہی ادویات میسر تو ہوں ۔اگر اب پالیسیاں بنانے اور ملک چلانے والے افلاطون بھی یہی جواز پیش کرتے ہیں تو ازراہ کرم یہ بھی بتادیں کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا؟

یہ عذر بھی پیش کیا جارہا ہے کہ ہم کیا کریں ،یہ سب گزشتہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔حضور! گستاخی معاف،کیا آپ محض یہ بتانے کیلئے حکومت میں آئے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان بارودی سرنگیں بچھا کر چلے گئے ؟اگر انہوں نے بچھائی تھیں تو آپ نہایت عجلت میں اقتدار سنبھالنے کے بجائے ان باردوی سرنگوں کے پھٹنے کا انتظار کرلیتے۔کڑوا سچ یہ ہے کہ اسحاق ڈار جیسے جہاندیدہ اور نہایت تجربہ کار وزیر خزانہ نے بھی وہی غلطی کی جو 2018ء میں نوآموز وزیر خزانہ اسد عمر سے سرزد ہوئی۔یعنی زمینی حقائق کا اِدراک کئے بغیر ڈٹ گئے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ۔جو متبادل دستیاب ہیں ،انہیں بروئے کار لاتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کریں گے ۔اس دوران تاخیر ہوتی چلی گئی اور وقت مٹھی میں بند ریت کی مانند ہاتھ سے پھسلتا چلا گیا ۔یہاں تک کہ جوگِرہیں انگلیوں کی پوروں سے کھولی جاسکتی تھیں ،انہیں دانتوں سے کھولنا بھی دشوار ہوگیا۔اسحاق ڈار کا تو یہ دعویٰ تھا کہ آئی ایم ایف کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔مگر شاید آئی ایم ایف ہمارے قومی مزاج ،عادات و اطوار اور حالات سے زیادہ اچھی طرح واقف ہے۔اب رسواکن انداز میں یہ شرائط جس طرح تسلیم کی جارہی ہیں ،اس سے بہتر تھا کہ شروع میں ہی باعزت طریقے سے یہ اقدامات کرلئے جاتے ۔ایسی صورت میں ڈالر 200سے نیچے یقیناً نہ آتا لیکن 260روپے کا بھی نہ ہوتابلکہ225روپے کے آس پاس رہتا ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام مسائل کا حل عام انتخابات ہیں ؟اگر یہ کوئی سیاسی بحران ہوتا تو یقیناً اسے عوام سے رجوع کرکے حل کیا جا سکتا تھالیکن یہ بدترین معاشی بحران ہے۔ان حالات میں انتخابات کروانے کا مطلب یہ ہوگا کہ کم ازکم 6ماہ کیلئےمعیشت کو ڈھلوان پر لڑھکتے ہوئے کسی گہری کھائی میں گرنے دیا جائے۔2018ء کے عام انتخابات پر 21ارب روپے خرچ ہوئے تھے،اب کم ازکم 25ارب روپے درکار ہوں گے، یہ تو وہی بات ہوئی ’’پلے نئیںدھیلہ تےکردی میلہ میلہ‘‘۔جب گھر کو آگ لگی ہو تو یہ فیصلہ کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جاتا کہ اس گھر پر حاکمیت کس کی ہوگی۔پہلے سب مل کر اس گھر کو خاکستر ہونے سے بچالیں ،ورنہ یہ سب لڑائیاں بے معنی ہوجائیں گی۔یادش بخیر ،1971ء میں بھی ہمارا یہی خیال تھا کہ انتخابات سے سب مسائل حل ہوجائیں گے لیکن تاریخ کے شفاف ترین الیکشن کے بعد ملک ٹوٹ گیاتھا۔