نعرۂ تکبیر کی گونج میں پہلے دستور کی منظوری

February 03, 2023

دستورساز اسمبلی نے ستمبر 1954ء کے اجلاس میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ منظور کر لی اور وَزیراعظم محمدعلی بوگرہ نے توقع ظاہر کی کہ دستور 25 دسمبر کو نافذ ہو جائے گا جو قائدِاعظم کا یومِ پیدائش ہے۔ اِس کے ساتھ ہی غیرمعمولی عجلت میں 1935ء کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اعلیٰ عدالتوں کو رِٹ جاری کرنے کے اختیارات تفویض کر دیے گئے۔ اُس ایکٹ میں یہ ترمیم بھی کی گئی کہ گورنر جنرل کابینہ کے مشورے کا پابند ہو گا اور کابینہ اجتماعی طور پر مقننہ کے سامنے جواب دہ ہو گی۔ طےشدہ منصوبے کے تحت، یہ ترامیم چند ہی گھنٹوں کے اندر اَندر اسپیکر کے دستخطوں کے بعد سرکاری گزٹ میں شائع بھی کر دی گئیں۔ گورنر جنرل غلام محمد اپنے اختیارات کے محدود ہو جانے پر بہت سیخ پا ہوئے اور اُنہوں نے 24؍اکتوبر کو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور اِعلان کیا کہ دستورساز اسمبلی عوام کا اعتماد کھو چکی ہے، اِس لئے وہ تحلیل کر دی گئی ہے۔ یوں اِنتہائی غیرآئینی اقدام کے باعث ایک اچھا دستور نافذ ہونے سے رہ گیا اور دَستورسازی کا عمل نت نئی مشکلات سے دوچار اَور ملکی سالمیت پر اثرانداز ہوتا گیا۔ گورنر جنرل نے وزیراعظم بوگرہ کی سربراہی میں ’’باصلاحیت افراد‘‘ (Talented Persons) پر مشتمل کابینہ تشکیل دی جس میں کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان کو دفاع اور میجر جنرل اسکندر مرزا کو داخلہ کے قلم دان سونپ دیے گئے۔ اُن کے علاوہ صوبہ سرحد سے ڈاکٹر خان اور مشرقی پاکستان سے جناب سہروردی بھی وزیر بنائے گئے۔ سہروردی صاحب کو قانون کا قلم دان سونپا گیا اور اُنہوں نے فوری طور پر آئین کا ڈرافٹ تیار کرنا شروع کر دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیزالدین خان نے گورنرجنرل کے اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کر دیا جس نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیرآئینی قرار دَیتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کو اَپنے منصبی فرائض ادا کرتے رہنے کا حکم صادر کیا۔ اِس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی۔ وفاقی عدالت کے پانچ رُکنی بینچ، جس کے سربراہ چیف جسٹس محمد منیر تھے، نے ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سےتکنیکی بنیادوں پر حکومت کے اقدام کو جائز قرار دَے دیا۔ فاضل جسٹس اے آر کارنیلیس نے ایک انتہائی مدلل اختلافی نوٹ لکھا جس کے آگے چاروں معزز جج صاحبان کے دلائل بہت ہی کمزور محسوس ہوئے۔ دستورساز اسمبلی کی تحلیل کے مقدمے میں فیڈرل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ دستورساز اسمبلی جو بِل منظور کرتی آئی ہے، اُسے قانون بننے کے لئے گورنر جنرل کے دستخط لازمی تھے۔ اِس فیصلے کی رو سے 46 قوانین کالعدم قرار پائےجنہیں گورنر جنرل کی منظوری (Assent) حاصل نہیں تھی، چنانچہ درجنوں قوانین کے یک لخت کالعدم ہونے سے ہولناک خلا پیدا ہو گیا۔ اُن میں وہ قوانین بھی شامل تھے جن کے تحت راولپنڈی سازش کیس کے ملزموں کو سزائیں ہوئی تھیں اور وُہ بھی جن کی رو سے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سزائےموت عمرقید میں تبدیل ہوئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پورا نظامِ حکومت منہدم ہو جائے گا۔ اِس انتہائی پریشان کن صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے گورنر جنرل نے آرڈیننس کے ذریعے 35عدد قوانین بحال کر دیے، مگر اُس اقدام کے خلاف فیڈرل کورٹ نے رولنگ دی کہ صرف منتخب دستورساز اسمبلی ہی کالعدم قوانین کی منظوری دے سکتی ہے، چنانچہ اِس پر بہت سنگین بحران اُٹھ کھڑا ہوا اَور چیف جسٹس محمد منیر نے تباہی کے گڑھے کو عبور کرنے کے لئے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ ایجاد کیا جس سے فوجی قیادت کو بار بار دَستور منسوخ کرنے کا سہارا ملتا رہا۔ فیڈرل کورٹ کے حکم پر نئی دستورساز اسمبلی وجود میں آئی جس میں مشرقی بنگال کی دو بہت مقبول سیاسی شخصیتیں منتخب ہو کر آئیں۔ جناب حسین شہید سہروردی اور مولوی فضل الحق۔ 80کے ایوان میں مسلم لیگ کی 26 نشستیں تھیں جو سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود قطعی اکثریت سے محروم رہی۔ دوسری جماعتوں میں کرشک سرامک نے 16؍اور عوامی لیگ نے 13نشستیں جیت لیں جبکہ چھوٹے چھوٹے گروپس کے ایک، دو، تین اور چار نمائندے بھی آ گئے۔ اِس صورتِ حال میں ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی تھی۔ پہلی کوشش میں مسلم لیگ اور کرشک سرامک نے مخلوط حکومت بنائی اور چوہدری محمد علی وزیرِاعظم چُنے گئے۔ مولوی اے کے فضل الحق اور وَزیرِاعظم کی شبانہ روز کاوشوں سے دونوں بازوؤں کے سیاست دانوں کے مابین اِس امر پر سمجھوتہ ہو گیا کہ ایک ایوانی مقننہ میں دونوں بازوؤں کی نمائندگی مساوی ہو گی۔ آئین سازی کے نقطۂ نظر سے یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا، کیونکہ اب تک دستورسازی میں تاخیر اِس لئے بھی ہو رہی تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین نشستوں کا تناسب طے نہیں ہو پا رہا تھا، کیونکہ ایک بازو کی آبادی زیادہ تھی جبکہ دوسرے بازو کا رقبہ اور اِنتظامی اور فوجی وسائل زیادہ تھے۔ مشرقی پاکستان نے بڑے ایثار کا مظاہرہ کیا تھا جس کی قدر کی جانی چاہئے تھی۔ اُس وقت وزیرِاعظم چوہدری محمد علی دستورسازی کے عمل کو جلد سے جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے پر خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے قائدین کے تعاون سے آئین کی تدوین میں تیزی آ گئی تھی۔ حُسنِ اتفاق سے 1956ء میں فروری کا مہینہ 29دن کا تھا اور دَستورساز اسمبلی کا اجلاس مہینہ ختم ہونے سے چند منٹ پہلے تک جاری رہا۔ تب اسپیکر نے اعلان کیا کہ دستور پاس ہو گیا ہے۔ اِس اعلان کا ارکان نے نعرۂ تکبیر اللہ اکبرکے ولولہ انگیز نعروں سے خیرمقدم کیا۔ سہروردی اور عوامی لیگ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، لیکن چھ ماہ بعد ہی اُنہوں نے اُسی آئین کے تحت وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور اُسے نہایت اچھا دستور قرار دِیا۔ اسپیکر صاحب نے مسودے پر دستخط ثبت کئےاوریہ آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذ ہو گیا۔ عوام میں فقید المثال جوش و خروش پایا جاتا تھا کہ اُن کا ملک ڈومی نین کے درجے سے بلند ہو کر ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے رتبے پر فائز ہو گیا ہے۔ اُس حیات افروز موقع پر پوری قوم اپنے خالقِ حقیقی کا شکر بجا لائی تھی۔ (جاری ہے)