گلگت فورس بمقابلہ لاہور پولیس زمان پارک میں GB فورس استعمال ہوئی، ریاستی اداروں پر جتھے حملہ آور ہیں، وزیر اطلاعات

March 16, 2023

لاہور(جنگ نیوز/ایجنسیاں)پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کیلئے زمان پارک آنے والی پولیس اورپی ٹی آئی کارکنان کے درمیان منگل کے روز شروع ہونے والی جھڑپیں بدھ کو دوسرے دن سہ پہر تک جاری رہیں۔

پولیس کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لئے شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا جبکہ کارکنان کی جانب سے جواب میں شدید پتھراؤ کیا گیا۔

جھڑپوں میں 58اہلکار اور آٹھ کارکن زخمی ہوئے جبکہ 60کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

کارکنوں نے پولیس پر پتھرکے ساتھ پٹرول بم پھینکے ‘املاک کو نقصان پہنچایا‘مال روڈ پر فینسی لائٹس توڑڈالیں ‘واٹرکینن کو آگ لگادی ‘ٹریفک وارڈنز کی موٹر سائیکلز جلادیں ‘جلاؤ گھیراؤ اور توڑپھوڑ کے بعد پولیس پیچھے ہٹ گئی ۔

ادھرعمران خان کی گرفتاری کے لیے کئے گئے پولیس آپریشن کے دوران پنجاب اور گلگت بلتستان کی پولیس آمنے سامنے آگئی۔ گزشتہ روزپنجاب پولیس کے اہلکار عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب پہنچے تو وہاں گلگت بلتستان پولیس کے گن مین اور اہلکار بھی موجود تھے جنہوں نے پنجاب پولیس پر گنیں تان لیں جس کے باعث پولیس کو زمان پارک سے باہر نکلنا پڑا۔

بعد ازاں وفاقی حکومت نے آئی جی پولیس گلگت بلتستان محمد سعید کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ زمان پارک میں گلگت بلتستان کی فورس کو استعمال کر کے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے سر پھاڑے جا رہے ہیں ‘دہشت گرد جتھے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہیں۔

منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں، وارنٹ گرفتاری عدالت نے جاری کئے، یہ منافق، بزدل اور جھوٹا شخص ہے جو پاکستان میں خانہ جنگی، سول وار اور افراتفری چاہتا ہے‘عمران خان کو پتہ ہونا چاہئے کہ جو ڈر گیا، وہ مر گیا، وہ شخص لیڈر نہیں ہوتا جو عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر بنکر میں چھپ کر بیٹھا ہو۔ عمران خان کی سیاسی موت ہو چکی ہے۔

پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت نہیں، یہ دہشت گردوں کا ٹولہ ہے، میڈیا کو بھی چاہئے کہ وہ اصل حقائق سامنے لائے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا، آج عمران خان عدالتی احکامات پر عدالت میں پیش نہیں ہوتے اور ان کے وارنٹ گرفتاری معطل کئے جاتے ہیں تو پھر پاکستان کے ہر شہری کے لئے یہ گنجائش فراہم کرنا پڑے گی۔