تماشے، لطیفے اور حقائق

March 17, 2023

بنگالیوں کو شیخ مجیب الرحمٰن سے عشق تھا اور پاکستانیوں کو عمران خان سے عشق ہے ۔ 1971 میں اقتدار پر نا اہل ٹولہ مسلط تھا بدقسمتی سے آج بھی ایسا ہی ہے ۔ پچھلے دو روزہ تماشے کو دیکھ کر کئی پرانے واقعات یاد آگئے ہیں ۔ اس وقت پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا۔ مشرقی حصے میں شیخ مجیب بہت مقبول تھے جب کہ مغربی حصے میں بھی اس کی پارٹی بہت حد تک سر گرم تھی مگر اقتدار پر براجمان ٹولہ شیخ مجیب الرحمٰن کی نفی چاہتا تھا ۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے شیخ مجیب پر کئی مقدمات قائم کئے ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو پولیس گرفتار کرنے جاتی تو بنگالی عوام پولیس کو بھگا دیتے۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا ۔ گرفتاری کیلئے بالآخر فوجی دستے میدان میں اتارے گئے۔ ائیر فورس کے کچھ لوگ بھی ساتھ تھے ۔ یاد رہے کہ ارشد شریف شہید کے والد محمد شریف اعوان بھی ان افراد میں شامل تھے ۔ شیخ مجیب الرحمٰن گرفتار ہو گیا ۔ گرفتار کرنے والوں کا منصوبہ یہ تھا کہ اسے راستے میں مار دیا جائے اور کہا جائے کہ یہ قتل پستہ قد بنگالیوں نے کیا ہے ۔ عوامی پریشر کے خوف سے منصوبے پر عمل نہ ہوسکا تو دوران حراست شیخ مجیب الرحمٰن کو تھپڑ مارے گئے۔آپ نے دیکھا نہیں پچھلے دو روز لاہور میں کیا ہوتا رہا۔ لاہور کیوں میدان جنگ بنا رہا، کیوں کئی شہروں کی پولیس اور رینجرز لوگوں پر تشدد کرتی رہی۔فضاؤں میں آنسو گیس گھولتی رہی؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا حالانکہ یہ روٹین کے وارنٹ تھے۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار افراد اشتہاری ہیں، ان کے گھروں پر تو دھاوے نہیں بولے گئے۔ رانا ثناءاللہ کے بھی وارنٹ جاری ہوئے ہیں، انہیں تو گرفتار کرنے کیلئے ایسا میلہ نہیں سجایا گیا ۔ وہاں تو صرف ڈی ایس پی نے لکھ دیا ہے کہ وہ ملے نہیں۔ جو لوگ حاضری وارنٹ کو جانتےہیں ، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تو مدعی کے بھی نکل آتے ہیں تو آخر عمران خان کے وارنٹ میں وہ کون سی چیز تھی جس نے حکومت کو اتنے بڑے آپریشن پر مجبور کر رکھا ہے؟ ایک دو ٹی وی اینکروں کے مطابق عمران خان کو مارنا مقصود تھا یا اسے مچھ جیل لے جاکر زہر دینے کا پروگرام تھا۔ ان سب منصوبوں پر عوامی طاقت نے پانی پھیر دیا ہے۔

مجھے یہ صورتحال دیکھ کر کچھ تازہ سیاسی لطیفے یاد آ گئے ہیں مثلاً عمران خان کی گرفتاری مقصد ہو تو کہا جاتا ہے کہ ہم قانونی ذمہ داری پوری کریں گے اور اگر الیکشن کروانے کا کہا جائے تو کہتے ہیں قانونی ذمہ داری پوری کرنا مشکل ہے۔ عمران خان کو گرفتار کرنا ہو تو تمام سیکورٹی فورسز حاضر اور اگر الیکشن کی بات ہو تو کہا جاتا ہے ہم سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتے۔ اور مزے کی بات یہ کہ اگر رانا ثناءاللہ کا وارنٹ ہو تو ڈی ایس پی رپورٹ جمع کرواتاہے کہ وہ گھر پر نہیں ملےاور اگر باری عمران خان کی ہو تو کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں گرفتارکرکے پیش کریں گے۔ ایک اور لطیفہ سن لیجئے ایک خاتون جس کے والد بیماری کا بہانہ بنا کر لندن میں رہائش پذیر ہیں ، وہ مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں میرے والد نے کبھی بیماری کا بہانہ بنایا، انہوں نے کبھی بزدلی دکھائی؟ اب اس میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ لندن میں مشکل ترین حالات سے لڑ رہے ہیں اور بہادری دکھا رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی گلی میں شور شرابہ ہوتا ہے اور وہ شور شرابے کے خوف سے باہر نہیں نکلتے۔توشہ خانہ کا تماشا دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ پاکستان میں کس قدر کم ظرف لوگ حکومتیں کرتے رہے ہیں ۔ ابھی تو توشہ خانہ کا اصل قصہ سامنے نہیں آیا جس دن 1985 سے لے کر 2000 تک حقائق سامنے آئے تو پھر دیکھنا ہو گا کیونکہ اصل لوٹ مار تونوے کی دہائی میں ہوئی ہے ۔

اب آجائیے حقائق کی طرف، ہمارے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو مقبول ترین سیاسی قوت کا احترام کرنا

چاہئے۔ ریاستی اداروں کو اپنے لوگوں کی یعنی پاکستانیوں کی بات سننی چاہئے کیونکہ اب زندگی کے مختلف طبقات مقبول ترین سیاست دان کے ساتھ جڑتے جا رہے ہیں ۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے خصوصی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر اشتیاق احمد خان کہتے ہیں کہ ’’حکومت وقت اور اس کے آلہ کار، پولیس سمیت فورسز کا استعمال کر کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرانا چاہ رہے ہیں ۔ ملک کے ہر شہری کو آئین و قانون کے تحت احتجاج کا حق حاصل ہے۔ لوگوں سے ان کی آزادیٔ رائے کے اظہار کا حق کسی صورت نہیں چھینا جا سکتا ، کیوں لوگوں کی زبانیں بند کی جا رہی ہیں۔ اگر کسی ایک وکیل کو زخمی کیا گیا یا کسی ایک وکیل کا بنیادی حق چھینا گیا تو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز سراپا احتجاج ہوں گی۔ ملک کی عدلیہ کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔کسی بھی شخص کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک روانہ رکھا جائے۔‘‘ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے عدالت سے سوال کیا کہ ’’کیا وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کا یہی طریقہ ہے؟ جب لوگ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے تو میں نے عمران خان سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری ہو چکے ہیں اور اس پر عملدرآمد ہونا ہے تو آپ کو عدالت میں پیش ہونا ہوگا ۔ عمران خان نے اسی وقت اس بات کو تسلیم کیا کہ میں 18 تاریخ کو عدالت میں پیش ہوں گا اور کہا کہ میں آپ کو اپنا شورٹی(ضامن) مقرر کرتا ہوں آپ ان سے بات کریں اور کہا کہ لوگوں کا ناحق خون نہ بہائیں میں خود عدالت میں پیش ہوں گا۔‘‘لوگوں نے برسوں انتظار کیا مگر ان کی زندگیوں میں سکون نہ آسکا۔ وہ ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف چلے گئے ۔ اب وقت کے دھارے نے لوگوں کو اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ وہ اپنے اور اشرافیہ کے درمیان آخری جنگ لڑنے کو تیار ہیں بلکہ ان کے لبوں پر نوشی گیلانی کا شعر ہے کہ

کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے

اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے