ان حالات میں ملک کیسے ترقی کرے گا؟

March 19, 2023

ایک گائوں میں مولوی صاحب رہتے تھے ،ان کا کوئی دوسرا ذریعۂ آمدن نہ تھا ،گزارہ بہت مشکل تھا۔ اسی گائوں میں ایک نیک دل جاگیردار رہتا تھااس نے زمین کا ایک ٹکڑا مولوی صاحب کو ہدیہ کیا کہ ویسے بھی سارا دن آپ فارغ ہو تے ہیں تو کھیتی باڑی کریں تاکہ آپ کا گزارا اچھا ہو جائے ۔مولو ی صاحب نے گندم کاشت کر لی ، اور جب فصل ہری بھری ہو گئی تو انہیں بڑی خوشی ہو ئی وہ اکثر کھیت میں ہی بیٹھے رہتے اور فصل دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے لیکن اچانک ایک ناگہانی مصیبت نے ان کو گھیر لیا، گاؤں کا گدھا روزانہ کھیت میں چرنے لگا، مولوی صاحب نے پہلے چھوٹے موٹے صدقے دیے لیکن گدھا نہ مانا اور فصل کی تباہی جاری رکھی۔ پھر مولوی صاحب نے مختلف سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونکنا شروع کر دیں لیکن گدھا پھر بھی ٹس سے مس نہ ہو ا، ایک دن پریشان حال بیٹھے گدھے کو فصل اجاڑتے دیکھ رہے تھے تو ادھر سے ایک کسان کا گزر ہو ا، گدھے کو فصل میں چرتا دیکھ کر کسان نے پوچھا مولوی صاحب آپ عجیب آدمی ہیں گدھا فصل تباہ کر رہا ہے اور آپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ جناب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کہاں بیٹھا ہوں؟ ابھی تک ایک مرغی اور بکری کے بچے کا صدقہ دے چکا ہوں اور کل سے آدھا قرآن شریف بھی پڑھ کر پھونک چکا ہوں لیکن گدھا ہٹتا ہی نہیں ہے مجھے تو یہ گدھا کافر لگتا ہے، جس پر کوئی شے اثر نہیں کرتی، کسان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا وہ سیدھا گدھے کے پاس گیا او ر گدھے کو دو چار ڈنڈے کس کر مارے، گدھا کسی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا ہو ا بھاگ کھڑا ہوا۔ کسان نے کھیت سے باہر آ کر ڈنڈا مولوی صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہا، قبلہ مولوی صاحب گدھوں کو بھگانے کیلئے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ ڈنڈا بھیجا ہے۔ ہمارے حکمران کروڑوں نہیں اربوں روپے لوٹے چلے جا رہے ہیں اور ہم صرف دعائوں اور صدقات و خیرات کے بل بوتے پہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جب تک یہ ہجوم ، ایک قوم بن کر ان لٹیروں سے نجات کیلئے اپنے ووٹ کا ڈنڈا استعمال نہیں کر ے گی یہ ملک و قوم کے تمام وسائل یونہی لوٹتے رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کی تقدیر نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے آپ کو نہ بدلے، اللہ ہمیں شعور اور ہمت دے کہ ہم اپنا حق لینے والے بنیں۔آمین

قارئین ایسا ہی کچھ حال ہمارے حکمرانوں کا بھی ہے کہ جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو خالی ہاتھ ہوتے ہیں اور جب واپس جانے لگتے ہیں تو پھر گو ر نر ، وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ اعظم ہاؤس اور ایوانِ صد ر میں لگے گلدستے اور بچھے قالین بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ ملک یوں ہی تباہ نہیں ہوا، اس کو اس مقام تک پہنچانے میں سب نے ہاتھ صاف کیے۔ آپ اس ملک کی تاریخ اٹھاکردیکھیں یہاں جوایک شاپرہاتھ میں اٹھاکرآیاوہ واپس جاتے ہوئے بوریاں بھرکرساتھ لےگیا۔آپ کوئی ایساگورنر،کوئی ایسا وز یراعظم اورکوئی ایساصدربتائیں جوخالی ہاتھ آکرخالی ہاتھ واپس گیاہو۔یہاں توناظم،ایم پی اے،ایم این اے،دورکے مشیراورمعمولی گریڈکے افسربھی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔اس ملک کو حکمر ا نو ں ، سیاستدانوںاوربیوروکریٹس نےجتنا لوٹاہے،اتناکسی اور نے نہیں لوٹاہوگا۔باہرکی دنیامیں لوگ خدمت کیلئے سیاست اورحکومت میں آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں لوگ کمانے اورتجوریاں بھرنے کیلئے سیاست کا انتخاب کرتے ہیں۔قربان جاؤں قائدتحریک صوبہ ہزارہ بابا سردار حیدرزمان مرحوم پر، اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔کیاخوب بات کہی تھی انہوں نے۔آخری بارجب ان سے ملاقات ہوئی توباتوں باتوں میں جب سیاست کے اوراق کھلے توباباکہنے لگے، جزوی سیاست اس ملک میں کچھ نہیں۔اب توسیاست کاروباراورسیاستدان د کا ند ا ر بن چکے ہیں۔آج بھی اگرآپ دیکھیں تووہی باباوالی بات ہے۔ہربندہ سیاست کوکاروبارکے طو ر پر کر ر ہا ہے۔ملک اورقوم کی کسی کوکوئی فکرنہیں۔انتخابات میں جولوگ ایک کروڑلگاتے ہیں وہ پھرایک کی جگہ 10کروڑکماتے ہیں۔ہم جیسے سادہ لوح لوگ جن کواپنامسیحااورنمائندہ سمجھ کرووٹ دیتے ہیں وہی پھر ڈسنا شرو ع کر دیتے ہیں۔لوگ سعودی عرب، ابوظہبی، ملائیشیا، کویت، جاپان اورکینیڈاجیسے ممالک میں محنت مزدوری کرکے برسوں پردیس کاٹنے کے بعدبھی اپنے لئے ایک مکان نہیں بناپاتے اوریہ سیا ستد ا ن ، حکمران اور بیوروکریٹس یہاں بیٹھے بیٹھے نہ صرف دنوں اورہفتوں میں مکانوں پرمکان بنالیتے ہیں بلکہ ساتھ اپنی اگلی نسلوں کیلئے خوبصورت شہروں میں ایڈوانس پلاٹ بھی لے لیتے ہیں۔آپ نے کبھی اس پر غور کیاکہ آپ کے خان، نواب، چو ہد ر ی ، و ڈ یر ےاوررئیس کے پاس اتنے مکان،اتنے پلاٹ اور کروڑوں واربوں کایہ مال کہاں سے آیا؟ماناکہ اشرافیہ میں چندفیصدخاندانی خان، نواب، چوہدری، وڈیرے اوررئیس ہوں گے لیکن اکثریت کواگرآپ دیکھیں تووہ یہی ظالم نکلیں گے جو75سال سے اس ملک وقوم کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔اب خوداندازہ لگائیں جس ملک میں ایسے حکمران،ایسے سیاستدان،ایسے بیوروکریٹس اورایسے افسر ہوں گے وہ ملک خاک ترقی کرے گا؟ملک کی ترقی کے لئے ایمانداراورامانت دارحکمران ضروری ہیں ۔ جہاں حکمران بدعنوان ہوں وہاںترقی اور خوشحالی کیسے آئے گی۔آج ہم جن نازک اور مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کانیک نہ ہونا ہے۔ ملک اگر دیوالیہ نہیں تو دیوالیہ پن کے قریب قریب پہنچ چکا ہے۔