اور ٹرین رُک گئی ....

March 26, 2023

یہ 1976ء کی بات ہے، مَیں جس تعمیراتی کمپنی سے منسلک تھا، اُس کمپنی کا ایک پراجبیکٹ کے سلسلے میں ایک کیمپ سندھ کے ایک علاقے ’’سیتا‘‘ نامی جگہ پر لگا۔ ہمارے کیمپ سے تقریباً دو یا تین کلو میٹر کے فاصلے پر سیتا ریلوے اسٹیشن تھا اور عین ریلوے لائن کے ساتھ ہی ہمارا کیمپ لگا ہوا تھا۔

ایک روز دوپہر کا وقت تھا، مَیں اپنے آفس میں بیٹھا کام میں مصروف تھا۔ ہمارے کیمپ آفس کے برابر ہمارے دفتر کا اسٹور تھا، جہاں اسٹور کیپر اپنے دو ہیلپرز کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔ مَیں نہایت انہماک سے اپنے دفتری کام میں مشغول تھا کہ اچانک ہی ایک بہت زوردار آواز آئی،تو مَیں نے باہر جا کر دیکھا تو ہمارا ایک موٹر گریڈر آپریٹر غالباً سائٹ سے واپس آتے ہوئے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گریڈر سمیت ریلوے لائن کراس کر گیا تھا (واضح رہے، یہ گریڈرز سائٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پائپ لائن کی اصطلاح میں R.O.W (رائٹ آف وے بنانے) اور ناہم وار راستے کو ہم وار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ہر گریڈر کے آگے ایک بلیڈ لگا ہوا ہوتا ہے، جو اونچی جگہوں کو کاٹتا ہوا زمین ہم وار کرتا جاتا ہے اور جو جگہ گڑھے والی ہوتی ہے، اُسے مٹّی، جھاڑیوں کی ٹہنیوں یا خالی بوریوں سے پُر کرتا رہتا ہے) غالباً موٹر گریڈر آپریٹر کام ختم کرنے کے بعد گریڈر کا بلیڈ اُوپر کرنا بھول گیا ہوگا یا کچھ کسر رہ گئی ہوگی اور پھر وہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیزی سے ریلوے لائن کراس کر گیا، جس کے نتیجے میں ریلوے لائن کی تقریباً دو یا تین گز کی پٹری اُکھڑ گئی۔

مَیں عجلت میں نکل کر ابھی اُس غفلت کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ معاً میری نظر سامنے کی طرف پڑی، عین اُسی وقت ایک ٹرین اسٹیشن کی جانب چلی آ رہی تھی، مَیں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر اسٹور کے تمام ملازمین کو باہر نکلنے کو کہا، تو سب ریلوے لائن پر آگئے۔ ہمارے اسٹور کیپر (حمید) نے جلدی سے اپنی قمیص اُتار کر ہوا میں لہرانا شروع کردی۔ اسی اثنا، مَیں نے بھی آفس سے تولیا لاکر لہرانا شروع کر دیا۔ دیگر لوگوں نے بھی اپنے اپنے طور پر یہی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے ٹرین ڈرائیور کو ایمرجینسی کے طور پر متوجّہ کرنا شروع کردیا۔

اُس وقت ٹرین حادثے والی جگہ سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر دُور تھی اور چوں کہ ریلوے اسٹیشن بھی قریب آ رہا تھا، اس لیے گاڑی کی اسپیڈ زیادہ تیز نہیں تھی، شُکر ہے، ٹرین ڈرائیور حالات کی نزاکت شاید سمجھ گیا، اِسی لیے اُس نے رفتار بتدریج کم کرتے ہوئے عین ہمارے سامنے آکر ٹرین روک دی۔ ہم سب نے اللہ کا لاکھ شُکر ادا کیا کہ بروقت ہوش مندی اور اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ہم لوگوں نے جس حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا، وہ کام آگئی اور ٹرین ایک یقینی ممکنہ حادثے سے بچ گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔

یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسے مواقع پر انسان کو صرف انسانی جان اور مُلکی نقصان کا سوچنا چاہیے اور جو کچھ آپ کے اختیار میں ہو،پوری نیک نیّتی کے ساتھ اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہوئے اُسے بروئے کار لانا چاہیے۔ اللّہ رب العزت ہر ایک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین) (ہومیو ڈاکٹر محمّد شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے،جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں،صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔