غرباء و مساکین کا حصہ

March 26, 2023

آج کے اِس نفسانفسی اور لالچ کے دَور میں بھی کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں، جو اللہ کی قدرت و رحمت پر یقین کچھ اور بھی بڑھا دیتے ہیں۔ میرے بیٹے زین العابدین نے سرگودھا کے ایک اسکول سے میٹرک کے بعد الیکٹرانکس میں تین سالہ ڈپلوما کیا۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد اُسے سرگودھا میں ایک انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ یہ واقعہ میرے بیٹے ہی سے متعلق ہے۔

ایک طویل عرصے سے میری پریکٹس ہے کہ مَیں نے ایک چھوٹی پوٹلی سی بنا رکھی ہے، جس میں کچھ نہ کچھ رقم اپنے روز مرّہ اخراجات سے بچا کر رکھتی رہتی ہوں۔ اور جب چند ہزار روپے جمع ہو جاتے ہیں تو کسی نہ کسی ضرورت مند کو دے دیتی ہوں۔ ہمارےجاننے والی ایک سفید پوش فیملی بیرون شہر رہتی ہے۔ تو اِس بار میرا ارادہ تھا کہ مَیں اُنہیں راشن کی مَد میں کچھ رقم بھیج دوں۔ تو اِسی نیّت سے مَیں نے اُس پوٹلی یا تھیلی میں سے پانچ ہزار بیس روپے نکال کر اپنے بیٹے زین کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ’’پانچ ہزار اُس فیملی کو دے دینا اور 20 روپے الگ سےکسی کو دے دینا۔‘‘ وقتی طور پر تھیلی خالی ہوگئی۔

زین اپنے دفتر، خیام چوک جانے سے پہلے آفس کے نیچے دکان پر کچھ ٹافیاں لینے کے لیے رُکا۔ اُس کے منہ کا ذائقہ اکثر خراب ہو جاتا ہے، تو وہ عموماً کچھ ٹافیاں لے کر جیب میں رکھ لیتا ہے۔ جب اُس نے ٹافیوں کے پیسے دینے کے لیے پرس نکالا، تو دکان دار نے بتایا کہ تمہارے 20 روپے نیچے گر گئے ہیں۔ زین نے نیچے دیکھا تو 20 روپے کا نوٹ گرا ہوا تھا، اُس نےلپک کر اُٹھا لیا۔ لیکن ساتھ ہی اُس نے غیر ارادی طور پر پرس میں پانچ ہزار کا نوٹ بھی ڈھونڈا تو وہ نوٹ غائب تھا۔

اُس نے اِدھر اُدھر کافی تلاش کیا۔ دکان دار کو بھی بتایا کہ بھائی! بیس روپے کا نوٹ تو مل گیا، مگر میرے پاس پانچ ہزار کا بھی نوٹ تھا، جو اب نہیں مل رہا۔ خیر، بہت دیر ہر طرف ڈھونڈنے کے بعد وہ مایوسی اور بے چارگی کے عالم میں وہاں موجود چند افراد اور آفس کے گارڈ سے یہ کہہ کر آفس چلا گیا کہ ’’اگر کچھ پتا چلے، تو اطلاع کر دینا۔‘‘ پھر مجھے فون کیا۔ مَیں وقتی طور پر پریشان تو ہوئی، مگر دل میں اطمینان تھا کہ میری اس ضرورت مند فیملی کو پیسے بھیجنے کی نیّت بالکل صاف تھی۔ پھر میں اکثر اوقات صدقہ خیرات بھی نکالتی رہتی ہوں، تو میرا رب میرا نقصان نہیں ہونے دیتا۔

میری چھوٹی بہن آمنہ لاہور میں اور بھائی عبدالقدوس چینوٹ میں رہتے ہیں، اُن سے فون پر بات ہوئی، تو مَیں نے اُن دونوں سے بھی تذکرہ کر دیا۔ چھوٹی بہن نے کہا کہ ’’باجی! آپ کی نیّت صاف تھی۔ آپ کی رقم ان شاءاللہ تعالیٰ مل جائے گی۔‘‘ پھر میری بھی عادت ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے ہر چھوٹے، بڑے واقعے کا تعلق اللہ سے جوڑ دیتی ہوں اور بس، وہ میرے سب بگڑے کام سنوار دیتا ہے، کسی بھی نقصان کی صُورت میں وہ وقت یاد کرتی ہوں کہ حضرت اُم سلمہؓ کے پہلے شوہر وفات پا گئے، تو آپؓ اُن کے بعد بے حد غم زدہ رہا کرتی تھیں۔ آقائے کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں، تو آپﷺ نے کوئی نقصان ہو جانے پر ’’اناللہ وانا اللہ راجعون۔ الّلھم اجرنی فی مصیبتی واخلف خیرا ً منھا۔‘‘ پڑھنے کی تلقین کی۔ سو، اس واقعے کے بعد (اگرچہ آج کے دَور کے حساب سے وہ رقم معمولی تھی، لیکن تب پانچ ہزار روپے اچھی خاصی رقم ہوا کرتی تھی) مَیں نے اور میرے بھائی، بہن نے دل سے یہی دُعا پڑھی۔

میرا بیٹا زین تو کھوئی ہوئی رقم سے بالکل مایوس ہو چُکا تھا۔ لیکن…دوسرے روز وہ آفس گیا تو خلاف توقع گارڈ نے خوش خبری سُنائی کہ آپ کی گم شدہ رقم مل گئی ہے۔ زین نے فوراً دکان دار سےرابطہ کیا، تو اُس نےتسلی اور تصدیق کے بعد نوٹ اُس کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ ’’کسی راہ گیر کو ملا تھا، اُس نے گارڈ کو دیا اورگارڈ نے میرے بیٹے کو۔‘‘ میرے بیٹے زین نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔ اور فوری طور پر وہ رقم اُس مستحق فیملی تک پہنچا دی، جن کی وہ امانت تھی، اور جن کے لیے وہ اللہ کی طرف سے لوٹائی گئی تھی۔

بہرحال، مَیںبےحد شُکر گزار ہوں، اس راہ گیر کی، اُس دکان دار کی، اُس گارڈ کی کہ جن کو اللہ نے میرے توکل اور استقامت کو مزید بڑھانے کا سبب بنایا۔ اُن میں سے کوئی بھی چاہتا تو وہ رقم خُود رکھ لیتا کہ لوگ تو معمولی رقم کے لیے ایک دوسرے کی جان تک لے لیتے ہیں۔ اور مَیں آپ سب لوگوں سے بھی کہوں گی کہ اللہ کا دیا ہوا مال آپ کے پاس کم ہے یا زیادہ، غربا، مساکین، محتاجوں، ضرورت مندوں کا جتنا حصّہ ممکن ہو، نکالتے رہیں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ نقصان سے بچائے گا اور آقائے کریم ﷺکی دُعائوں سے حتی الامکان استفادہ بھی کیا کریں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (مصباح طیب، سرگودھا)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے،جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں،صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔