رمضان: چار ہفتوں کا بہترین تربیتی کیمپ

March 26, 2023

فرحی نعیم، ایڈمن سوسائٹی، کراچی

ماہِ صیّام اپنی بےشماررحمتوں ، برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہو چُکا ہے۔ اب ہم کہاں تک اس کے تقاضے پورے کرتے اور اس کے فضائل سمیٹنے کے لیے اپنا دامن وسیع کرپاتے ہیں، اس کا انحصار ہم پر ہے ۔ چاہیں تو اپنے آپ کو مکمل سیراب کرلیں یا تہی داماں رہ جائیں۔رمضان المبارک کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیں تو اس کی حیثیت چار ہفتوں کے ایک تربیتی کیمپ کی بھی ہے، جس میں ہم تقویٰ اختیار کرنے کی تربیت حاصل کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔

ویسے تو اطاعتِ الٰہی ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن بحیثیت خواتین ہمیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور دینِ اسلام پر مکمل کار بند رہنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے نسلوں کی تربیت کی ذمّے داری سونپی ہے۔ یعنی ماں کی غلط سیکھ، بے راہ روی، بداخلاقی، دین سے دُوری صرف اُسی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی اولاداور پھر آنے والی نسلوں میں پروان چڑھتی ہے۔ ایسے میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ میسّر آنا کسی نعمت سے کم نہیں کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچّوں کو بھی تقویٰ، شکر گزاری اوراطاعتِ الٰہی کاپابند بنا سکتے ہیں۔

ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ بچّے قول و نصیحت سے نہیں، عمل و فعل سے سیکھتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں، جو ان کے بڑے کر رہے ہوں اور ماہِ رمضان میں تو ویسے بھی بچّوں کا زیادہ تر وقت ماؤں کے ساتھ ہی گزرتا ہے کہ اسکولز سے بھی جلدی چُھٹی ہوجاتی ہے اور ٹیوشن وغیرہ سے بھی۔ پھر مائیں بھی عام دنوں کی نسبت عبادات، گھریلو کاموں اور کچن میں زیادہ متحرک نظر آتی ہیں، تو یہی در اصل وہ وقت ہے کہ جب بچّوں کو باتوں ہی باتوں میں ، لاڈ پیار سے دین کی سمجھ بوجھ دینی ہے، اخلاقیات کا سبق سکھاناہے، ربّ کی شکر گزاری کی تعلیم دینی ہے۔ اس تیس دن کے پیکیج سے استفادہ کرکے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’کسی شخص کی تربیت کے لیے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں۔‘‘ تو یہ تو پھر بھی چار ہفتوں کا سیشن ہے۔ اس تربیتی کیمپ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ ہدایت نامے کے ذریعےمومن بندوں اور بندیوں کی مختلف پہلوؤں سے تربیت کا پورا انتظام موجود ہے۔ہم رمضان المبارک کے رحمتوں بَھرے مہینے میں کیسے خود کو اور اپنے بچّوں کو بہتر سے بہترین بنا سکتے ہیں، آئیے، اس حوالے سے کچھ غور طلب باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

نیّت کی اہمیت

سب سے پہلے تو اپنے دل و دماغ میں یہ عقیدہ پختہ کرلیں کہ اس ماہ ہمارا ہر کام صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لیے ہوگا۔ پھر چاہے وہ سحری بنانا ہو، عبادات کرنا، صدقات وزکوٰۃ دینا یا افطاری بنانا۔ یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ انسان کا عمل نہیں، اُس کی نیّت دیکھتا اور اُسی پر پرکھتا ہے، تو جب ہم کوئی بھی کام اللہ کو راضی کرنے، اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کریں گے، تو پھر اجر و ثواب تو یقینی حاصل گا۔

نفس پر قابو

ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر لحظہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ تو جیسے راہ سے پتّھر ہٹانے کی نیّت کے بدلے نیکی ملتی ہے، ویسے ہی کسی کے لیے کوئی غلط،لغو بات منہ سے نکالنے کا گناہ بھی ہمارے کھاتے میں فوراً لکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ، بالخصوص خواتین حالتِ روزہ میں بھی غیبتوں چغلیوں سے باز نہیں آتیں، تو یاد رکھیں، روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کا نام ہے۔

بسیار خوری سے اجتناب

ماہرین کا خیال ہے کہ سال میں کم ازکم چالیس دن ایسے ضرور گزارنے چاہئیں، جن میں بارہ سے بیس گھنٹے کا فاقہ کیا جائےکہ یہ صحت کے لیے اکسیر ہے۔ ذرا سوچیں کہ ماہرینِ صحت تو اب یہ تحقیق کر رہے ہیں، جب کہ ہمارے دین نے توساڑھے 14 سو سال پہلے ہی یہ راز بتا دیا تھا۔ روزے سے نہ صرف جسمانی نظام معتدل رہتا ہے بلکہ روحانی نظام بھی۔ اس لیے ہمیں رمضان میں مرغّن غذاؤں، بھاری سحر و افطار کے بجائے سادہ اور منظّم غذا استعمال کرنی چاہیے تاکہ نظامِ ہضم درست رہے اور کچھ دن معدےکو بھی آرام ملے۔

پابندیِ وقت کی اہمیت

وقت کی جتنی پابندی اس ماہ ہوتی ہے اور کسی مہینے نہیں ہوتی۔ سحر وافطار میں ایک، ایک منٹ کا حساب تمام اہلِ خانہ کی پوروں پر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دن کے تمام اُمور وقت پر بلکہ وقت سے پہلے ہی مکمل کرلیے جاتے ہیں۔ دل چسپ امر تو یہ ہے کہ بھوکا، پیاسا ہونے کے باوجود سُستی ہوتی ہے، نہ کاہلی۔

خواتین عبادات کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں، لذیذ پکوان بھی بناتی ہیں اور عید کی شاپنگ بھی زورو شور سے جاری رہتی ہے، لیکن مجال ہے کہ ذرا بھی کم زوری یا نقاہت کا احساس ہو۔ تو ذرا سوچیں، اگر پابندیِ وقت کی یہی مشق باقی گیارہ مہینے بھی جاری رکھی جائے، تو کتنا وقت بچ سکتا ہے۔ اگر عام دنوں میں بھی نمازِ فجر سے کاموں کا آغاز کردیا جائے، تو بہت عمدگی سے گھر کے تمام کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ صبح کا وقت چوں کہ بڑا برکت والا ہوتا ہے، لہٰذا سارے کام وقت پر، بنا بھگدڑ مچےخوش اُسلوبی سے طے پاجاتے ہیں اور پھر دیگر کاموں کے لیے بھی وافر وقت میسّر ہوتا ہے۔

سونے کے اوقاتِ کار

تاخیر سے سونا اور دیر سے اُٹھنا آج ہمارا معمول بن چُکا ہے۔ راتوں کو چوں کہ بہت تاخیر سے سوتے ہیں، تو صبح اگر جلدی اُٹھ بھی جائیں، تو پورا دن سستی اور کاہلی کی نذر ہو جاتا ہے، کیوں کہ نیند پوری نہیں ہوتی۔ جب کہ ماہِ رمضان ہمیں سونے، جاگنے کے معمولات منظّم کرنے کی تربیت دیتا ہے۔یوں بھی جسمانی کارکردگی کا بڑا انحصار کام اور آرام کے اوقات کی تقسیم پر منحصر ہے۔

جسم اسی وقت چاق چوبند رہے گا، جب اس کے آرام کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ اگر بے وقت نیند لی جائے، تو سکون نہیں ملتا، بس طبیعت بھاری ہوجاتی ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک کی طرز پر باقی مہینوں میں بھی عشاء پڑھ کر سونے اور تہجّد میں اُٹھنے کی عادت اپنائیں۔ اس طرح آپ خود کو بےحد توانا محسوس کریں گے۔ نیز، جدید تحقیق سے بھی ثابت شدہ ہے کہ رات دس سے صبح چار کا وقت نیند کے لیے بہترین ہے۔

غصّے پر قابو

چوں کہ روزہ نفس پر قابو پانے کی بہترین مشق ہے کہ اس کا اصل مقصد ہی نفس پر کنٹرول ہے،توبلاشبہ اس اخلاق وعادات، کردار و اعمال میں اعتدال و توازن اور شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ پھر صبر وتحمّل کی خوبی وہ کمالِ حُسن پیدا کرتی ہے کہ جس سے گھر اور خاندان اُنسیت و چاہت کا بے مثال نمونہ بن جاتے ہیں۔

آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ ماہِ رمضان صرف نیکیاں کمانے، بھوکا پیاسا رہنے کا نہیں، معمولاتِ زندگی بہتر کرنے کا بھی مہینہ ہے۔ اس ماہ روٹھوں کو منانے، میل جول بڑھانے کے اَن گنت مواقع میسّر آتے ہیں، جن سے ہر صُورت فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ آج ہم سب مختلف فکرات میں گِھرے ہوئےہیں۔ آج کی عورت مختلف چیلنجز سے نبردآزما، سکون کی متلاشی ہے، تو رمضان المبارک ایک انعام کی صُورت آتا ہے کہ جس میں معتدل، منظّم معمول اپنا کر زیادہ سے زیادہ عبادات کا اہتمام کرکے تمام پریشانیوں، فکروں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

یہ صرف کچن میں مصروف رہنے یا بازاروں کے چکّر لگانے کا مہینہ نہیں، پاکیزگیِ نفس اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کا مہینہ ہے، تو اسے فضولیات میں ہرگز ہرگزضایع نہ کریں۔ اللہ پاک کے آگے اپنی پریشانیوں کا اظہار کیجیے، روئیے، گڑگڑائیے، اللہ سے اُس کی رضا، اُس کی خوشنودی مانگیں۔ اس ماہِ مبارک سے خود بھی استفادہ کریں اور اور اپنے اہلِ خانہ، بالخصوص بچّوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیں کہ بے شک جیسی نیت ہوگی ، زندگیوں پر ویسے ہی اثرات مرتّب ہوں گے۔