آمنہ شمیمہ فاؤنڈیشن

March 26, 2023

بلاشبہ ’’نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہوتی ہے‘‘ کیوں کہ ایسی ہی اولاد والدین کے اس دنیا سے کُوچ کرجانے کے بعد بھی اُن کے ناموں سے ایسےنیک اعمال انجام دینے کی کوشش کرتی ہے کہ پھر جو رہتی دنیا تک اُن کے لیے اجر وثواب کا باعث بنتے ہیں۔ زینب اور منصور رضا کا شمار بھی ایسی ہی اولاد میں ہوتا ہے، جو اپنی ماؤں کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔ زینب اور منصور رضا دونوںکی مائیں، ماہرِ تعلیم تھیں اور اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے کے بعد بھی انسانی خدمت میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

کیوں کہ زینب اور منصور رضا نے کراچی میں پس ماندہ کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی ماؤں کے ہی نام سے ایک فلاحی ادارہ’’آمنہ شمیمہ فاؤنڈیشن (اے ایس ایف)‘‘ کا قیام ممکن بنایا ہے، جس میں اُن تمام اقدار و روایات اور اصولوں کی پاس داری کی جاتی ہے کہ جن پر اُن کی مائیں تمام عُمر کاربند رہیں۔ اس فاؤنڈیشن کا آغاز معاشرے سے جہالت کے اندھیرے مٹانے اور شرحِ خواندگی بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ ان دونوں خواتین کی میراث زندہ رہے اوراُن کے دنیا سےچلے جانے کے بعد بھی دنیا پر اُن کے اثرات ثبت ہیں۔

’ ’آمنہ شمیمہ فاؤنڈیشن‘‘کا آغاز 2022 ء کے آخر میں کراچی کے ایک چھوٹے سے قصبے سے کیا گیا، جس کا بنیادی نظریہ و مقصد معمّر افراد اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانا ہے۔ نیز، اس مقصدکی تکمیل کے لیے پیشہ ورانہ کورسز، تعلیمِ بالغان پروگرام اور کمیونٹی ایونٹس بھی متعارف کروائے جا رہے ہیں۔فاؤنڈیشن کے روحِ رواں زینب اور منصور رضا ہیں، جنہوں نے اپنی ماؤں کے ناموں کو زندہ رکھنے کے لیے اس فاؤنڈیشن کا آغاز کیا اور اب اسےفروغ دینےمیں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

فاؤنڈیشن کے روحِ رواں، زینب اور منصور رضا

اے ایس ایف کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’معاشرے میں تعلیم عام کرنے کے لیے ہمیں اس ادارے کے آغاز کا خیال اُس وقت آیا، جب ہم نے تعلیم کے شعبے میں مسلسل فعال رہنے والی اپنی ماؤں میں ریٹائرمنٹ کے بعد نتیجہ خیز زندگی گزارنے کی خواہش دیکھی۔‘‘منصور رضا کی والدہ، شمیمۃ الحُسین رضا، جو کم گو خاتون اور انگریزی ادب کے مطالعے کی شوقین تھیں، ایک طویل عرصے تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہیں۔ شمیمۃ الحُسین رضا1933ء میں بھارت کے شہر، نئی دہلی کے ایک علاقے میں پیدا ہوئیں اور 1947ء میں اپنی ماں اور چھے بہنوں کے ساتھ کراچی،پاکستان ہجرت کی۔

پروفیسرآمنہ کمال مینائی

گرچہ وہ اُس وقت بہت چھوٹی تھیں، لیکن پختہ ارادوں کےساتھ زندگی گزارنے والی انسان تھیں، تعلیم سے ان کی محبت بچپن ہی میں اس وقت عیاں ہوگئی تھی، جب انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی پڑھایا لکھایا۔ جب وہ ہجرت کر کے پاکستان آئیں، تو ایک ایسے خاندان کے بڑے بچّوں میں سے ایک تھیں، جن کا کوئی مرد سرپرست نہیں تھا۔

اس لیے انہوں نے گھر چلانے کا ذمّہ اپنے سر لے لیا۔ 15سال کی عُمر میں نوجوان شمیمہ اپنی تعلیم کے ساتھ، خاندان کی کفالت کے لیے چھوٹے بچّوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔ نیز، وہ تمام عُمر اپنے پڑوس میں بچّوں کو مفت پڑھانے اور تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دینے کے حوالے سے معروف رہیں۔ 1964ء میں انہیں لبنان کے شہر، بیروت کی امریکی یونی وَرسٹی میں انگریزی ادب میں ماسٹرز مکمل کرنے کے لیے اسکالرشپ سے نوازا گیا۔

انہوں نے 1976 ء میں مشہور ماہرِ تعلیم اور حبیب پبلک اسکول کے اُس وقت کے پرنسپل، ڈاکٹر اے ایچ رضوی کی(جو ’’رضوی صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہیں) نگرانی میں ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا۔ وہ اپنےحقوقِ نسواں کے نقطۂ نظر کے حوالے سے بھی جانی جاتی تھیں، جو ایک قدامت پسند معاشرے میں رہنے کے باوجود ان کی شخصیت سے صاف جھلکتا تھا۔

شمیمتہ الحُسین رضا کا طرزِ زندگی عُمر بھرانتہائی سادہ اور کفایت شعاری پر مبنی رہا، وہ ظاہری سے زیادہ اخلاقی نشو نما پر یقین رکھتی تھیں۔ زندگی میں ان کا رہنما اصول ایمان داری تھا۔ وہ اکثر کہتیں کہ ’’ایمان داری بہترین پالیسی نہیں،واحد پالیسی ہے۔‘‘ وہ مولانا حسرت موہانی گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول، بفر زون، کراچی کی پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں اور ان کا انتقال 18جولائی 1997ء کو ہوا۔

زینب رضا اپنی والدہ، آمنہ کمال مینائی کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’میری ماں! ایک نرم گو، مگر مضبوط شخصیت کی مالک تھیں، جنہوں نے ایک ماہرِ تعلیم کے طور پر زندگی گزاری۔ وہ سرسید گرلز کالج، کراچی میں اُردو کی پروفیسر کی حیثیت سے ہزاروں خواتین کی سرپرست رہیں۔‘‘ آمنہ مینائی 1933ء میں بھارت کے شہر، رام پور میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں،جو علم و ثقافت سے وابستہ تھا۔ ان کے دادا، امیر مینائی لکھنؤ کے مشہور شاعر، ادیب اور لغت نویس تھے۔

شمیتہ الحسین کی شوہر کے ساتھ
ایک یادگار تصویر

آمنہ کو بچپن ہی سے پڑھائی لکھائی کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے حیدرآباد دکّن میں جامعہ عثمانیہ سے انٹرمیڈیٹ کی سند حاصل کی، جب کہ ان کا خاندان 1950ء میں ہجرت کرکے کراچی آیا۔ بعد ازاں ،انہوں نے بی اے کیا، پھر لاہور سے ادیب فاضل اور جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ سرسید گرلز کالج جب ابتدائی مراحل میں تھا، تب وہ اس ادارےکا حصّہ بنیںاور جلد ہی ان کا شمار فیکلٹی کی ایک فعال اور ذمّے دار رکن کے طور پر ہونے لگا، پھر ترقّی کرتے کرتے پرنسپل کے عُہدے تک پہنچیں اور 1993ءمیں پرنسپل ہی کے عُہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ گرچہ بچپن کے ایک حادثے کی وجہ سے اُن کی ایک آنکھ ضایع اور دوسری کالے موتیا کا شکارہوگئی تھی۔ تاہم، انہوں نے تمام عُمرپڑھائی، مطالعے اور اَن تھک محنت کا سلسلہ جاری رکھا۔

آمنہ مینائی نے کالج میں کئی ادبی سوسائٹیز کی تشکیل اور تقریبات کے ساتھ ساتھ باصلاحیت لڑکیوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق زندگی گزارنے کاہنر سکھایا۔ ان کی طالبات میں سعیدہ گزدر، شکیلہ افضل، پروین شاکر اور دیگر کئی نام وَر خواتین شامل ہیں۔ آمنہ مینائی اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کتابیں اور مضامین لکھتی ،تراجم کرتی رہیں۔ اُن کی میٹھی طبیعت اور سخاوت کی وجہ سے ان سے ملنے والے تمام لوگ اُنہیں بےحد پیار اور عزّت دیتے تھے۔

زینب کا کہنا ہے کہ ’’اے ایس ایف کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ معمّر افراد کا علم اور تجربہ ضایع نہ ہو، وہ آنے والی نسلوں تک پہنچایا جائے۔ ہم نسلوں کے درمیان مثبت تعلقات کے فروغ، آموزش اور ترقّی کے مواقع فراہم کرنے میں ایک مضبوط، زیادہ لچک دار اور مربوط کمیونٹی کی تعمیر کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ادارے میں طلبہ کو اسی طرح سیکھنے، بڑھنے اور ترقّی کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے، جیسا ہماری ماؤں نے اپنی زندگی میں کیا۔ یہ فاؤنڈیشن کراچی کے ضلع ملیر کے علاقے گڈاپ ٹائون کے حاجی غلام زکریا گوٹھ میں خدمات انجام دے رہی ہے۔

یاد رہے، یہ ایک کم آمدنی والا علاقہ ہے، جہاں مذہبی و نسلی امتزاج نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں قریباً ڈھائی ہزار گھرانے مقیم ہیں اورغالباً کوئی ایک پلاٹ بھی لیز شُدہ نہیں۔ یہاں کی خواتین عام طور پر امیر گھرانوں میں کام کا ج ، جب کہ مردباغ بانی، کارپینٹنگ، ویلڈنگ اور ڈرائیونگ وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔نیز، علاقے میں کوئی کلینک، سرکاری اسکول یا ڈاک خانہ بھی موجود نہیں ہے۔‘‘

فاؤنڈیشن نے اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ستمبر 2022ءمیں زینب اور منصور کی تعمیر کردہ دو منزلہ عمارت سے کیا۔ اور یہاں سب سے پہلے اِسکلز ڈیویلپمنٹ پروگرام متعارف کروایا گیا، جس میں خواتین کو سلائی کڑھائی، بناؤ سنگھار اور منہدی لگانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اے ایس ایف کا ارادہ ہے کہ رواں سال اُن بالغ افراد کے لیے خواندگی کا منصوبہ (تعلیمِ بالغان) شروع کرے، جو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے۔ نیز، کچھ ڈاکٹرز اوردیگر غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ( جو علاقے میں سرگرم ہیں) مل کر میڈیکل کیمپس منعقد کرنے کا بھی ارادہ ہے۔

زینب نے بتایا کہ ’’علاقے کی خواتین کا کلاسز میں شامل ہونے کے لیے پُرجوش ردّعمل (سیکھنے اور تعاون کی پیش کش دونوں ہی) اس قسم کے مزید منصوبوں کے آغاز کی اہمیت اجاگر کرتا ہے۔ جس سے ہمیں بھی خاصی تحریک مل رہی ہے۔‘‘ جب کہ منصور رضا کا کہنا ہے کہ ’’جب ہم خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی دیکھتے ہیں۔ انہیں با اختیار ہوتے، اپنے خاندان، برادریوں اور مجموعی طور پر معاشرے میں اپنا حصّہ ڈالنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتا دیکھتے ہیں، تو دلی سکون و طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارا اگلا قدم پس ماندہ طبقوں کی ہنر مند خواتین کو مرکزی دھارے کی مقامی مارکیٹ سے جوڑنا ہے، تاکہ وہ تجربہ حاصل کرسکیں۔

جب کہ نوجوانوں کی کمپیوٹر کلاسز کے لیے کمپیوٹرز اور طبّی خدمات کے آغاز کے لیے بنیادی طبی آلات کی خریداری بھی فاؤنڈین کی ترجیحات میں شامل ہے کہ اس طرح ہمیں فوری طور پر اپنی اپنی استعدادِ کار بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہم نے دس سلائی مشینز کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اور آج 20 طلبہ کے دو بیچز شروع ہو چُکے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے پروگرامز میں مقامی افراد کی کتنی دل چسپی اور مانگ ہے۔‘‘

ادارے کی فنڈنگ کے ضمن میں زینب کا کہنا ہے کہ’’اس فاؤنڈیشن کے لیے ایک ٹھوس مالیاتی منصوبہ ناگزیر ہے تاکہ ہم اپنا کام بنا رُکے کرتے رہیں، لہٰذا دوسری تنظیموں کے ساتھ شراکت داری یا رضاکاروں کے استعمال جیسے تخلیقی اقدامات بھی زیرِ غور ہیں۔ نیز، ہم اپنے دوستوں، رشتے داروں کی جانب سے ملنے والے حوصلے اور حمایت پر بھی تہہ دل سے ممنون ہیں۔ ہم نے تو بس ایک خواب دیکھا تھا، مگر اسےحقیقت کا رُوپ دینے میں تمام خیر خواہوں کی مخلصانہ حمایت اور تعاون شامل ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ آئندہ بھی کئی افراد خود آگے بڑھ کر ہمارا ساتھ دیں گے ۔‘‘