بلوچستان کا تاریخی سبی میلہ

March 26, 2023

سبّی شہر اور یہاں منعقد ہونے والے سبّی میلے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ میلہ صدیوں سے منعقد ہورہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس کی تاریخ کم و بیش چھے سو سال پر محیط ہے۔ بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم، محمّد علی جناحؒ نے بھی فروری 1948ء میں اِس میلے میں شرکت کی تھی۔ ابتدا میں میلے کے موقعے پر قبائلی جرگے منعقد ہوا کرتے تھے، جن میں قبائلی تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کیے جاتے۔ بانیٔ پاکستان بھی ایسے ہی ایک جرگے میں شریک ہوئے تھے۔

بعدازاں، گورنر جنرل، صدور، وزرائے اعظم، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سینیٹرز، وفاقی وزراء اور ارکانِ اسمبلی سمیت اہم شخصیات میلے کی مختلف تقریبات میں شرکت کرتی رہی ہیں۔1980ء کی دہائی تک یہ تاریخی میلہ دس دنوں تک جاری رہتا تھا، جس کی افتتاحی یا اختتامی تقریب میں سربراہِ مملکت، صوبائی گورنر یا وزیرِ اعلیٰ شرکت کرتے۔ بعد میں یہ میلہ سات دن اور پھر پانچ دن کا ہوگیا۔

جن سربراہانِ مملکت نے میلے کی تقریبات میں شرکت کی، اُن میں جنرل ضیاء الحق، غلام اسحٰق خان، جنرل پرویز مشرف، ممنون حسین، ڈاکٹر عارف علوی، وزرائے اعظم میں محمّد خان جونیجو، محترمہ بے نظیر بھٹو وغیرہ شامل ہیں۔ سبّی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، میر عبدالجبار خان بھی میلے میں شرکت کرچُکے ہیں۔ چوں کہ یہ میلہ صدیوں پرانی روایات کا حامل ہے، تو اِس تسلسل کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔یہ میلہ نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے، بلکہ علاقے کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو سال بَھر میلے کا انتظار رہتا ہے۔ سبی میلے کی ایک حیرت انگیز اور خاص بات یہ بھی ہے کہ جب بھی اِس میلے کی تاریخوں کا اعلان ہوتا ہے، تو بارش ہو جاتی ہے۔ گرد آلود ہوائیں چلتی ہیں یا پھر دونوں چیزیں یکے بعد دیگرے اپنا کمال دِکھاتی ہیں۔ انتظامیہ نے متعدّد بار تاریخوں میں ردّ وبدل کرکے بھی دیکھ لیا، لیکن جو بھی تاریخیں مقرّر ہوئیں، اُس دَوران بارش ضرور ہوئی۔اِس سال بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر میلے کی تاریخ تبدیل ہوئی۔

پہلے25 فروری تا28 فروری اور بعد میں اِس کی تاریخ 3 مارچ سے 5 مارچ مقرّر ہوئی۔تاہم، اِس مرتبہ بھی حسبِ سابق بارش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میلے کے دَوران مطلع ابر آلود رہا اور وقفے وقفے سے ہلکی بارش ہوتی رہی۔گویا موسم خوش گوار رہا۔بارش کے دَوران میونسپل کمیٹی کے چیف آفیسر، محب اللہ سنجرانی بلوچ کی ہدایت پر صفائی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے،جس سے میلے کا انعقاد ممکن ہوا۔

اِس تاریخی میلے کی افتتاحی تقریب میں3 مارچ کو وزیرِ اعظم پاکستان، میاں شہباز شریف کی آمد متوقع تھی، لیکن عین وقت پر معلوم ہوا کہ وزیرِ اعظم سرکاری مصروفیات کی بنا پر تقریب میں شریک نہیں ہوں گے۔ اگر وزیرِ اعظم آتے، تو گورنر اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کی شرکت بھی یقینی ہو جاتی۔ صوبائی وزیرِ تعلیم، میر نصیب اللہ مَری نے میلے کا باقاعدہ افتتاح کیا۔وہ صوبائی وزیرِ آب پاشی اور صوبائی سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، میر دوستین جمال دینی کے ساتھ میلہ گراؤنڈ، سردار چاکر خان ڈومکی اسٹیڈیم پہنچے، تو کمشنر شاہد سلیم قریشی، ڈپٹی کمشنر قاضی عبدالمنصور، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر وحید شریف عمرانی، اسسٹنٹ کمشنر علی شاہ عبّاسی، اے سی بختیار آباد کیپٹن (ر) محمّد اویس اور ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک ڈاکٹر فاروق احمد لونی نے اُن کا استقبال کیا۔

مقامی اسکول کے بچّوں نے اُنھیں گل دستے پیش کیے۔ روایت کے مطابق مہمانوں کو روایتی پگڑیاں پہنائی گئیں۔ تقریب کا آغاز اللہ ربّ العزّت کے کلام کی تلاوت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم میں ہدیۂ نعت پیش کرنے سے ہوا۔تقریب کی میزبانی کے فرائض ڈاکٹر عبدالرحمٰن نوید اور فرینہ خٹک نے انجام دئیے۔بعدازاں، شرکاء نے مل کر قومی ترانہ پڑھا۔سبّی اسکاؤٹ کے جوانوں نے مہمانِ خصوصی کی اجازت سے میدان میں غبارے اور کبوتر چھوڑے ،جب کہ ڈے فائر ورکس کا بھی خُوب صُورت مظاہرہ ہوا۔ گرلز گائیڈز نے ملّی نغمہ ،تو ایف سی، پولیس کانسٹیبلری اور ماڈل اسکول کے طلبہ نے بینڈ کی دُھنوں پر مہمانِ خصوصی کو سلامی دی۔

بلوچستان کانسٹیبلری کے بینڈ کی قیادت سب انسپکٹر نعیم سیلاچی کررہے تھے۔ سبّی کے6 مختلف اسکولز کے تین سو بچّوں نے خُوب صُورت ’’رِم جِھم شو‘‘ پیش کیا۔ پولیس، پی سی اور ایف سی کے جوانوں نے گھڑ سواری اور نیزہ بازی کا شان دار مظاہرہ کیا۔ شیخوپورہ سے آئے ہوئے ملک عبداللطیف اعوان نے گھوڑوں کا روایتی رقص پیش کیا، جسے بے حد پسند کیا گیا، جب کہ محکمہ لائیواسٹاک کی جانب سے مُلک کے مختلف حصّوں سے لائے گئے جانوروں کی نمائشی پریڈ ہوئی۔ نومنتخب چیئرمین میونسپل کمیٹی، خجک اقوام کے تمندار، سردار محمّد خان خجک نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی کو خوش آمدید کہا اور ساتھ ہی علاقے کے مسائل بیان کیے۔

جواباً مہمانِ خصوصی نے ڈویژنل پبلک اسکول سبّی کو اَپ گریڈ کرکے دانش اسکول کا درجہ دینے کا اعلان کیا، جب کہ سبّی شہر کے سیوریج سسٹم کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ اور کیڈٹ کالج کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔ صوبائی وزیر نے شہر میں پینے کے پانی کے مسئلے کے حل کے لیے پانچ کروڑ روپے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کمشنر سبّی ڈویژن کو پی سی وَن ارسال کرنے کی ہدایت کی۔ نیز، اُنہوں نے اسکول کے بچّوں کے لیے پانچ لاکھ، پریس کلب سبّی کے لیے چار لاکھ اور تقریب کے میزبانوں کے لیے ایک لاکھ روپے کا اعلان کیا۔

میلے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی، صوبائی وزیرِ تعلیم، میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ’’ تاریخی سبّی میلہ اپنی روایتی رنگینیوں، مسرّتوں کے ساتھ شروع ہورہا ہے اور ہمیشہ یہ اُمید رہی ہے کہ آئندہ سال اِس میلے کی شان و شوکت میں مزید اضافہ ہوگا۔ جہاں اِس وقت ہم موجود ہیں، یہ خطّہ تہذیبِ انسانیت کی ماں کہلاتا ہے۔ یہاں کی تاریخ صرف صحبت سرائے، وکٹوریہ ہال، میر چاکر قلعے ہی تک محدود نہیں، بلکہ اس کی تاریخ مہرگڑھ کی سات ہزار سالہ تہذیب و تمدّن تک پھیلی ہوئی ہے۔ مختلف ادوار میں سربراہانِ مملکت نے بھی اِس میلے کی سرپرستی کی۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ سبّی میلہ عوام النّاس کے لیے خوشیوں کا پیغام لانے کے ساتھ سماجی و معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا بھی سبب ہے۔

یہ میلہ ایک تہذیبی وَرثہ ہے اور گلّہ بانی یہاں کے باسیوں کی زندگی میں ازحد اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا اِس شعبے کی ترقّی کا اصل مطلب مویشی پالنے والوں کی آمدنی میں اضافہ اور علاقے کی خوش حالی ہے۔ بلوچستان کی 80 فی صد آبادی کا انحصار گلّہ بانی ہی پر ہے۔ منڈی مویشیاں واسپاں نہ صرف سبّی، بلکہ صوبے بَھر کی آمدنی میں اضافے کا باعث ہے۔ یہ میلہ جہاں گلّہ بانی اور زراعت کے فروغ کے ضمن میں اہمیت کا حامل ہے، وہیں اِس سے ہمیں باہمی پیار و محبّت، بھائی چارے اور یگانگت کا درس بھی ملتا ہے۔‘‘

مہمانِ خصوصی نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں انعامات بھی تقسیم کیے۔ بعدازاں، صوبائی وزیر نے زرعی و صنعتی نمائش کا افتتاح کیا اور محکمۂ تعلیم، آب پاشی، لائیواسٹاک، زراعت، صحت، پبلک ہیلتھ، بی اینڈ آر، سماجی بہبود اور نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے اسٹالز کا بھی معائنہ کیا۔ دوسری جانب، جرگہ ہال آڈیٹوریم میں چلڈرن اکیڈمی کا پہلا پروگرام، آرگنائزر پروفیسر قمرعباس نے پیش کیا۔ اُسی آڈیٹوریم میں رات کو بلوچستان اکیڈمی آف آرٹس کے ڈائریکٹر اسلم رند کی زیرِ نگرانی میوزیکل شو ہوا، جس میں تحسین سکینہ، فضا جاوید، رافع اسرار، نتاشا بیگ، ساگر خان، امجد وارثی، ثانیہ خان اور ارم نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

اِس مرتبہ ڈپٹی کمشنر قاضی عبدالمنصور کی ذاتی دل چسپی کی بنا پر سبی کے مقامی فن کاروں کو بھی میوزیکل پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ سرکس، موت کا کنواں اور دیگر پروگرام رات گئے تک جاری رہے۔ میلے کا دوسرا دن خواتین کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ سردار چاکر خان ڈومکی اسٹیڈیم میں ہونے والے ہارس اینڈ کیٹل شو کی مہمانِ خصوصی، پارلیمانی سیکریٹری ویمن ڈویلپمنٹ، مہ جبین شیران تھیں۔ آخر میں مہمانِ خصوصی نے شیلڈز تقسیم کیں۔

انتظامیہ کی جانب سے اسپیشل بچّوں کے لیے ایک خصوصی پروگرام آڈیٹوریم میں ہوا، جب کہ خواتین اور بچّوں کے لیے ذہنی آزمائش کا پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ شاہین آرٹس اینڈ ایجوکیشنل ویلفیئر کا پروگرام جرگہ ہال میں ہوا۔ دونوں پروگرامز کے مہمانِ خصوصی سیکریٹری سوشل ویلفیئر عمران خان تھے۔نیز، میوزیکل شو جرگہ ہال اور آتش بازی کا مظاہرہ سردار چاکر خان ڈومکی اسٹیڈیم میں ہوا اور مہمانانِ خصوصی کے ساتھ ہزاروں مرد و خواتین اُن سے بھرپور لُطف اندوز ہوئے۔

یاد رہے، سبّی میلے کی منڈی مویشیاں میں مُلک بَھر سے لائے گئے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، جس کے لیے منڈی میں اعلیٰ نسل کے جانور لائے جاتے ہیں، جن میں گائے، بیل، اونٹ، بھینس، بھیڑ، بکریاں، دُنبے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔امسال بھی منڈی میں میلے کے دَوران کروڑوں روپے کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوئی۔

سچ تو یہ ہے کہ جو گلہ بان سال بَھر جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اُن کی بہترین پرورش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، اُنھیں معقول معاوضہ مل جائے، تو اُن کی محنت وصول ہو جاتی ہے۔ یہاں بھاگ ناڑی نسل کے بیل زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ اِس سال ایسے ہی ایک بیل کی قیمت 22لاکھ روپے لگائی گئی، مگر سودا نہ ہوا۔ مشیّتِ ایزدی دیکھیے کہ وہی بیل نمائشی پریڈ کے بعد اسٹیڈیم سے باہر لایا جارہا تھا کہ اچانک گر پڑا اور اُس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ 22 لاکھ والا بیل مقامی قسائی کو تین لاکھ روپے میں فروخت کرنا پڑا۔

میلے کو کام یاب بنانے کے لیے انتظامیہ سمیت دیگر محکموں کے افسران، طلبہ، اسکاؤٹس، تاجروں اور شہریوں نے بھرپور محنت کی اور ایک دوسرے سے مکمل تعاون کیا۔ سیکوریٹی کی بات کریں، تو پولیس، لیویز اور ایف سی نے اپنی ذمّے داریاں احسن انداز سے انجام دیں۔ میونسپل کمیٹی کے چیف آفیسر محب اللہ سنجرانی بلوچ کی ہدایت پر چیف سینٹری انسپکٹر سلیم بنگلزئی اور اُن کے عملے نے شہر کی صفائی اور میلے کے راستوں پر پانی کے چھڑکاؤ کا خاص اہتمام کیا تاکہ شرکاء دھول مٹّی سے محفوظ رہ سکیں۔

میلے کے تیسرے اور آخری روز ڈومکی اسٹیڈیم میں اختتامی تقریب منعقد ہوئی،جہاں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے صوبائی وزیرِ داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا استقبال کیا اور اُنھیں روایتی پگڑی پہنائی۔ چیئرمین میونسپل کمیٹی، سردار محمّد خان خجک نے سپاس نامہ پیش کیا۔ سیکریٹری دوستین جمال دینی، کمشنر شاہد سلیم قریشی، کمانڈنٹ سبّی اسکاؤٹس کرنل ظفر اور ڈپٹی کمشنر قاضی منصور احمد کے علاوہ دیگر کئی اہم شخصیات بھی تقریب میں شریک تھیں۔

صوبائی وزیر میر ضیا لانگو نے اختتامی خطاب میں کہا کہ’’ مَیں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی حکومت کی جانب سے اُن لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جو کسی بھی وجہ سے ناراض ہوکر پہاڑوں پر گئے ہیں، وہ آئیں اور ہمارے ساتھ بیٹھیں، ہم اُن کی ناراضی دُور کریں گے۔ بلوچستان اکیس ویں صدی میں کُشت و خون کا متحمّل نہیں ہوسکتا۔صوبے کی ترقّی و خوش حالی اور استحکام کے لیے اُنہیں ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ سبّی میلہ بلوچستان کی پہچان ہے اور یہ میلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ میلے امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے منائے جاتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ بلوچستان کے عوام نے سبّی میلے کی صُورت اپنی ہزاروں برس پر محیط تاریخ زندہ رکھی ہوئی ہے۔‘‘ اِس موقعے پر بینڈ مظاہرہ، نیزہ بازی، ملّی نغمے، ڈے فائر ورکس، ملک لطیف اعوان کا گھوڑا ڈانس، علاقائی رقص، رم جھم شو اور مختلف جانوروں کی پریڈ ہوئی۔

اختتامی تقریب میں مختلف آئٹمز پیش کرنے والے طلباء و طالبات اور بینڈ دستوں میں انعامات کا اعلان بھی کیا گیا۔ مہمانِ خصوصی نے دیگر معزّز مہمانوں کے ساتھ زرعی و صنعتی نمائش کا دَورہ کیا اور مختلف اسٹالز کا بھی معائنہ کیا۔ یوں بلوچستان کا یہ سالانہ تاریخی، روایتی اور ثقافتی سبّی میلۂ مویشیاں و اسپاں 2023ء اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔