’’بنو قابل ویمن ایمپاورمنٹ اینڈ انٹرپری نیور شپ پروگرام‘‘ کا آغاز

March 26, 2023

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل عورت کی زندگی رنج و الم سے عبارت تھی۔ رُوئے زمین کی کوئی قوم، کوئی خطّہ ایسا نہیں تھا، جہاں عورتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ نہ توڑے جاتےہوں۔ اُن کی خریدو فروخت ، ناحق ظلم و زیادتی ایک عام بات تھی، عورت کوعیش وعشرت کی کوئی شئےسمجھا جاتا، تب ہی اُس سےحیوانوں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا جاتا۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑدیا جاتا۔ مطلب یہ کہ عورت کی اپنی کوئی پہچان، شناخت ،حیثیت نہیں تھی۔

وہ عُمر بھر پہلے باپ، پھر شوہر اور اس کے بعد بیٹوں کی تابع و محکوم رہتی۔ لیکن اسلام کی آمد کے بعد عورت کو ایک مقام، حیثیت، شناخت ملی۔ اسلام نے اسے ذلّت وپستی کے گڑھوں سے نکال کر عزّت و تکریم سے نوازا۔ نبیِ کریم ﷺ، جہاں پورے عالم کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے، وہیں انہوں نے عورتوں کی عزّت وتکریم کا بھی حکم دیا۔ بیٹی کو زحمت نہیں، رحمت کہا۔ اُنؐ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ ایک کام یاب تاجر اور عرب کی سب سے مال دار خاتون تھیں۔ حضورؐ، حضرت خدیجہ ؓ کا مالِ تجارت فروخت کے لیے لے کے گئے اور انہوں ؐ نے اس کام میں ہر گز کوئی عار محسوس نہ کی۔

شادی کے بعد بھی نبیِ کریم ﷺ نے اپنی اہلیہ کو کاروبار کرنے سے نہیں روکا بلکہ ایک بہترین ساتھی کی طرح قدم قدم پر اُن کا ساتھ دیا۔ یہ ہے اسلام، یہ ہے سنّتِ نبویﷺ۔ ہم پیارے نبیﷺ کے نام پر جان قربان کرنے کےدعوے تو کرتے ہیں، لیکن حقیقتاً ہم نےاُن کی تعلیمات، اسوۂ حسنہ کو یک سر فراموش کر رکھا ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے خواتین کو صرف شناخت، پہچان ہی نہیں دی، معاشرے میں ایک نام و مقام اور اعلیٰ و افضل رتبہ و مقام بھی دیا۔

عموماً خواتین کو ’’صنفِ نازک‘‘ کہا جاتا ہے اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نےعورت کو مرد کی نسبت نازک، کم زور تخلیق کیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت ہی ہے ، جو مکان کو گھر بناتی ہے، اپنوں کے لیے بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا کرنے سے بھی نہیں گھبراتی۔ اگر عورت بظاہر کم زور ہے، تو وقت آنے پر چٹان سے زیادہ مضبوط بھی بن جاتی ہے۔ اور جب کوئی مرد کم زور پڑتا ہے، تو عورت ہی ماں، بیوی ، بیٹی یا بہن کے رُوپ میں اُسے سہارا دیتی، اس کی ڈھال بنتی ہے۔ تو اگر خواتین بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ معاشی طور پر بھی مضبوط و مستحکم ہوں، تو بھلا اس میں کیا قباحت ہے۔

خواتین کے معاشی طور پر مضبوط ہونے سے ہماری مراد ہر گز یہ نہیں کہ انہیں بلا ضرورت گھر سے نکلنے، ملازمت کرنے پر مجبور کیا جائے کہ آج کل تو ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، پھر کورونا کے بعد سےتو ویسے بھی دنیا بھر میں ’’ورک فرام ہوم‘‘ اور آن لائن ورکنگ عام ہوگئی ہے، تو کیوں نہ گھریلو خواتین کو بھی گھر داری سے ذرا بریک دے کرگھر بیٹھے پیسا کمانے کے کچھ گُر سکھائے جائیں اور اس ضمن میں ان کی بھرپورحوصلہ افزائی کی جائے۔

رواں سال ’’عالمی یومِ خواتین ‘‘ کے موقعے پر الخدمت ،کراچی نے ’’بنو قابل ویمن امپاورمنٹ اینڈانٹرپرینیورشِپ ‘‘پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت باقاعدہ رجسٹریشن کا بھی آغاز ہو چُکا ہے۔ اس حوالے سےامیرِ جماعت اسلامی، کراچی ،حافظ نعیم الرحمٰن نے ایک مقامی ہوٹل میں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ہمارا ہدف ہے کہ آئندہ برس مارچ تک 50 ہزار خواتین کو’’بنو قابل، ویمن ایمپاورمنٹ اینڈانٹرپری نیور شِپ پروگرام‘‘ کے تحت ہنر مند بنائیں تاکہ خواتین معاشی معاملات میں اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹاسکیں۔

اس حوالے سےہم نے کچھ ایسے کورسزڈیزائن کیے ہیں ،جو گھریلو خواتین بآسانی سیکھ سکتی ہیں ۔اس وقت مُلک کی آبادی قریباً 24 کروڑ افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 12کروڑ خواتین ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے مُلک میں نہ صرف خواتین کو بلکہ مَردوں کو بھی اُن کےحقوق نہیں ملتے۔ مُلک پر ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقہ قابض ہے، جس کے اورجاگیردارانہ مائنڈ سیٹ نے عوام کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے، مگر ہمیں اپنے اتحاد اور اتفاق سے اس طبقےکو شکست دینی ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’کراچی میں 10لاکھ سے زائد بچّے ایسے ہیں، جو سِرے سے اسکول ہی نہیں جاتے، ایک بڑی تعداد میٹرک سے آگے نہیں پڑھ پاتی اورڈگری ہولڈرز بھی گلے سڑے نظام کی وجہ سے گھروں میں فارغ بیٹھے ہیں۔

جماعتِ اسلامی اور الخدمت نے پہلے مرحلے میں10ہزار بچّوں اور بچیوں کے لیے آئی ٹی کورسز کا آغاز کیا ہے، جب کہ ہم کراچی کی خواتین کے لیے کھیلوں کے میدان میں بھی کام کریں گے۔یاد رکھیں، کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقّی اور اخلاقی تربیت میں خواتین کا کردار انتہائی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔ عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ درحقیقت خواتین کے حقوق غصب کس نے کیے ہیں اور آج خواتین جن مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں، اُن کا ذمّے دار کون ہے، بد قسمتی سے مُلک میں آج تک اسلامی نظام نافذ ہی نہیں ہوا، اسی لیے یہاں خواتین کو اسلام کے عطا کردہ حقوق بھی حاصل نہیں ہوسکے۔

انگریز چلے گئے، لیکن انگریز کے غلام آج بھی ہم پر حکم رانی کر رہے ہیں۔ اسی حکمران ٹولے نے ملک اور قوم کو آئی ایم ایف کے دلدل اور شکنجے میں پھنسا دیا ہے۔ یہ خود تو اپنی اولاد کو بیرونِ مُلک تعلیم دلواتے ہیں اور یہاں عوام کو جاہل رکھتے ہیں۔ کراچی میں لاکھوں خواتین فیکٹریوں میں ٹھیکےداری نظام کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اُن کے حقوق اور ملازمین کے تحفظ کے لیے کوئی آواز نہیں اُٹھاتا، ملک کے سب سے بڑے شہر میں خواتین کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں۔

اندرونِ سندھ سیلاب متاثرہ ، ننگے پیر بچّوں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے خود برانڈڈ جوتے پہنتے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کے علاقوں میں خواتین کی شادیاں بھی انہی کی اجازت سے ہوتی ہیں۔ ان جاگیرداروں، وڈیروں اور حکم ران ٹولے سے نجات حاصل کیے بغیر خواتین کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ملک و قوم حقیقی معنوں میں ترقّی کر سکیں گے۔‘‘ اس موقعے پر چیف ایگزیکٹیو ،الخدمت، نوید علی بیگ نے کہاکہ ’’آج کراچی کی نمایندہ خواتین یہاں موجود ہیں، بنو قابل پراجیکٹ کا اہم پہلو ویمن ایمپاور منٹ کو سپورٹ کرنا اورآگے بڑھانا ہے۔

الخدمت کے تحت بننے والے پانچ اسپتال لاکھوں مریضوں کو سہولتیں بہم پہنچا رہے ہیں، جہاں جدید ایم آرآئی مشینز،سی ٹی اسکین اورالٹرا ساؤنڈ مشینز بھی موجود ہیں۔ ہم تعلیم کے شعبے میں بھی کام کر رہے ہیں۔22 ہزار بچّوں کی کفالت ان کے گھروں پر کی جا رہی ہے، جنہیں ساڑھے4 ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں ،جب کہ ہم بچّوں کی ’’پرسنالٹی ڈیویلپمنٹ‘‘ اور ہیلتھ اسکریننگ کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔’’بنو قابل پروگرام‘‘ ان لوگوں کے لیے شروع کیا گیا ہے، جو آئی ٹی ایجوکیشن حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے تحت ہم کراچی کے10ہزار بچّوں، بچیوں کو مفت آئی ٹی کورسز کروارہے ہیں اور اب خواتین کے لیے بھی ایک پروگرام شروع کیا ہے، جس کی رجسٹریشن شروع چُکی ہے۔

خواتین banoqabil.pk پر جا کر خو د کو رجسٹر کروائیں۔‘‘ جماعت اسلامی، حلقہ خواتین ،کراچی کی ناظمہ ، اسما سفیر نے کہاکہ ’’خواتین کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عالمی یوم خواتین ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم عورتوں کے حقوق کی بات کریں، عورت کا معاشرے میں کلیدی کردار ہےاور جماعتِ اسلامی حلقۂ خواتین بھی ہر شعبے میں کام کررہا ہے۔ ہر دَور میں مختلف چیلنجز اور فتنوں نے سر اُٹھایا ہے اور الحمدُ اللہ، ہم نے ہمیشہ ہی ان سے نمٹنے کے لیے اپنا بَھر پور کردار ادا کیا ہے۔ ہم آج بھی مُلک بھر میں خواتین کے حقیقی مسائل اور ان کے حل کے لیے جدّو جہد کر رہے ہیں۔ قرآن مجید ہی ہم سب کے لیے ہدایت کا اصل سر چشمہ ہے، ہمیں اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہی اپنی زندگیاں سنوارنی ہیں، تو قرآن سے اپنا تعلق مضبوط بنائیں ۔‘‘

تقریب سےڈائریکٹر ،بنو پروگرام بنوقابل فاروق کاملانی ، پراجیکٹ مینیجر، سلمان شیخ ،عائشہ انس ،وفاقی جامعہ اردو کی پروفیسر، ڈاکٹر صبا زہرہ، ڈاکٹر فاطمہ نقوی، ڈاکٹر زینب انصاری، فضا اثر، سامیہ اسامہ لاری، عنبریں حسیب عنبر ، حمیرا محبوب اور دیگر نے خطاب کیا، جب کہ قریباً ہر شعبۂ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔