مُلکی تاریخ کا مہنگا ترین رمضان

March 26, 2023

پاکستان27 رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں وجود میں آیا،گویا اس نے فیوض و برکات کے بے پایاں سرچشموں کے جلو میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور اب76 ویں برس میں داخل ہوچُکا ہے۔ اگرچہ اِس دَوران مُلک اَن گنت سماجی، معاشرتی اور اقتصادی بحرانوں سے گزرا، لیکن رمضان المبارک کی دینی، روایتی اور تہذیبی رونقوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حالات جیسے بھی ہوں، ایک عام مزدور سے لے کر آجر تک، افسر سے ملازم تک ، کاشت کار سے زمین دار تک، غرض زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اپنی استطاعت و استعداد کے مطابق افطار و سحر کا اہتمام کرتا چلا آ یا ہے۔

ہر شخص ہی کی خواہش اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے معمول سے کچھ زیادہ ہی کھانے پینے کا اہتمام کرے کہ افطار و سحر کی یہی رونقیں دسترخوان کو چار چاند لگاتی ہیں۔گو کہ ہر آنے والا ماہِ رمضان پہلے سے زیادہ منہگا ہوتا ہے کہ اکثر تاجر، دُکان دار اور بیوپاری اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مَن مانا اضافہ کرکے پورے سال کا منافع اِسی ایک ماہ میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن 2023ء کا رمضان اِس اعتبار سے گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف ہے کہ ماہرینِ معاشیات نے اِسے پاکستانی تاریخ کا منہگا ترین ماہِ رمضان قرار دیا ہے، جس میں اشیائے خورونوش اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور نتیجتاً مُلک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بسنے والے تمام ہی افراد دہائیاں دے رہے ہیں۔

یوں تو پاکستان کی سیاسی اور معاشی تاریخ کا کوئی دَور عوام کے لیے کچھ زیادہ خوش آئندہ یا آرام دہ ثابت نہیں ہوا، لیکن گزشتہ ایک، ڈیڑھ سال تو سیاسی اور معاشی بحرانوں کے ضمن میں عوام کے لیے بہت ہی بھاری ثابت ہوا ہے کہ منہگائی کا گراف تمام حدودوقیود پار کر گیا۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں منہگائی نے سر اُٹھایا، تو اُس پر قابو پانے کے لیے کئی وزرائے خزانہ بدلے گئے، مگر حالات جُوں کے تُوں رہے، پھر حکومت تبدیل ہونے کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ حالات بھی جَلد بدل جائیں گے، لیکن نئی حکومت بھی عوام کے دُکھوں کا مداوا نہ کر سکی، بلکہ اب تو عوام کو ایسی بدترین معاشی صُورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو اِس سے قبل مُلک کی75 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عوام ماہِ صیام جن بدترین حالات میں گزار رہے ہیں، اقتصادی اور معاشی اعشاریے اُس کی تصدیق کرتے ہیں۔

مثلاً ٭ منہگائی (41 فی صد) گزشتہ 70 سال کی بلند ترین سطح پر٭روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی٭بیرونی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر٭مُلکی زرِمبادلہ کے ذخائر سب سے کم سطح پر٭بیرونِ مُلک سے ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ کمی٭شرحِ سود (20فی صد) تاریخ کی بلند ترین سطح پر٭پاکستان ڈیفالٹ موڑ پر٭پاکستان کی اقتصادی ریٹنگ تاریخ کی بدترین سطح پر۔یہ چند ایسی اقتصادی علامات ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ مُلک و قوم کے بخیے کس طرح اُدھڑ رہے ہیں۔

اِس طرح کے حالات کے اثرات منہگائی میں اضافے کی صُورت ظاہر ہوتے ہیں، جن کا اندازہ وفاقی ادارۂ شماریات کی اُس سالانہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے، جو اُس نے فروری 2022ء سے فروری 2023ء کے دَوران مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق جاری کی۔ جیسے:٭آٹا50 فی صد، پیٹرول، ڈیزل68 فی صد، چکن 56 فی صد، انڈے78 فی صد، کُھلا دودھ72 فی صد، چاول 77فی صد، پھل55 فی صد، بناسپتی گھی45 فی صد، خوردنی تیل50 فی صد، چائے کی پتی20 فی صد، چنا60 فی صد، مونگ کی دال56 فی صد، دال ماش50 فی صد، مسور کی دال27 فی صد، مشروبات 24فی صد، اسٹیشنری 60 فی صد، ٹرانسپورٹ33 فی صد، ادویہ 25فی صد اور جوتے 20فی صد منہگے ہوئے،جب کہ بجلی کے بِل عوام کی پہنچ سے باہر ہوئے، تو کسان پیکیج کا بھی خاتمہ ہوا۔

اِن حالات میں عوام پر کیا گزر رہی ہے، اس کا اندازہ کم آمدنی والوں، بالخصوص ملازمت پیشہ افراد کی مشکلات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کی اوسط ماہانہ آمدنی 35،40 ہزار روپے ہے اور وہ ایک ہزار کا نوٹ لے کر گھر سے نکلتا ہے، تو اگر اُس کا گھرانہ5 افراد پر مشتمل ہو، تو5 کلو آٹا خریدنے پر 800 روپے لگ جائیں گے، جب کہ باقی 200 روپے میں آدھا کلو تیل بھی نہیں ملے گا۔ گھر کا کرایہ، بچّوں کی تعلیم، سبزی، دودھ، بجلی اور گیس کے بلز، ملبوسات، مرچ مسالے، دالیں وغیرہ ان سب کے لیے 30، 40 ہزار روپے ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔

چلیے، ماہانہ اوسط آمدنی 50، 60ہزار روپے بھی تصوّر کرلیں، تب بھی حالیہ منہگائی میں یہ’’ بھاری بَھر کم‘‘ رقم بھی اپنی اہمیت کھو چُکی ہے، جب کہ دیکھا جائے، تو 23کروڑ کی آبادی میں سے بیش تر افراد کی آمدنی 50، 60ہزار والوں کی فہرست میں نہیں آتی۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق، 5 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، جب کہ گزشتہ 10، 11ماہ کی خوف ناک منہگائی نے مزید ایک کروڑ افراد کو غربت کی پٹّی میں دھکیل دیا ہے۔

یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کے وسائل پر 20فی صد اشرافیہ کا قبضہ ہے، جسے مراعات اور سبسڈیز کی شکل میں اربوں روپے کی رعایتیں بھی دی جاتی ہیں۔ بے روز گاری عروج پر ہے، کارخانوں کی بندش اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تباہی کے بعد لاکھوں افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں، روپے کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ ایک لاکھ روپے کی قدر 70، 80ہزار روپے کے برابر رہ گئی ہے۔ اِن حالات میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مناسب تن خواہ لینے والا طبقہ بھی روز مرّہ اخراجات پورے کرنے کے لیے سخت پریشانی سے دو چار ہے۔

لاہور میں 60ہزار روپے ماہانہ تن خواہ لینے والے ایک پرائیویٹ فرم کے ملازم، عبد القیوم نے اِس صُورتِ حال پر کہا کہ’’ گزشتہ 8، 10برس میں حالات اِتنی تیزی سے بدلے ہیں کہ ذہن چکرا کر رہ گیا ہے اور لگتا ہے کہ بیوی، بچّوں سمیت سڑک پر آ گیا ہوں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ گزشتہ 75برسوں میں سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کی جنگ میں عوام کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ کسی بھی حُکم ران کی ترجیحات میں عوام کی خیر خواہی اور بھلائی شامل نہیں رہی۔

یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کے ایک مخصوص طبقے کو زندگی کی تمام تر سہولتیں حاصل ہیں، جب کہ عوام کی اکثریت کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک میّسرنہیں، نوبت یہاں تک آ چُکی ہے کہ اب ہمارا مقابلہ افغانستان اور صومالیہ جیسے ممالک سے کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں ہماری عزّت و تکریم کا یہ حال ہے کہ ہمارا پاسپورٹ افغانستان اور عراق جیسے ممالک کی صف میں ہے۔‘‘ عبد القیوم نے مزید کہا کہ’’ صرف 10، 12سال پہلے گھر میں سحر و افطار کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ فروٹ چاٹ، دہی بڑے، پکوڑے اور مشروبات دستر خوان کا حصّہ ہوتے۔

اہلیہ روزہ داروں کے لیے باقاعدگی سے مسجد میں افطار بھیجا کرتیں، جب کہ محلّے دار بھی ایک دوسرے کے ہاں افطار بھجواتے، اِسی طرح دفاتر اور اداروں میں افطار پارٹیز کا رواج عام تھا، رشتے داروں کو بھی افطار ڈنرز پر بُلایا جاتا، اگرچہ یہ رجحان اب بھی برقرار ہے، لیکن اس میں بہت حد تک کمی آگئی۔ ظاہر سی بات ہے، جب تن خواہ یا آمدنی میں اضافہ نہ ہو، تو محدود آمدنی میں پہلے کی نسبت کم ہی خریداری ہو سکے گی۔ دس بارہ سال پہلے مَیں کئی غریب گھرانوں کو ماہانہ راشن لے کر دیتا تھا، مسجد میں ختمِ قرآن کی محفل ہوتی، تو دِل کھول کر عطیہ کرتا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنی 7سالہ بچّی کی روزہ کُشائی پر مَیں نے اچھی خاصی تقریب کی تھی۔امامِ مسجد کو عید کے موقعے پر کپڑوں کا نیا جوڑا دینے کی روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی۔ اب تو موجودہ تن خواہ میں ہمارا دستر خوان ہی سکڑ گیا ہے، باقی روایات کیسے انجام دیں۔ پکوڑوں، فروٹ چاٹ، دہی بڑوں کی بجائے صرف کھجور سے افطار کر رہے ہیں، جب کہ مختلف اقسام کے مشروبات کی بجائے صرف سکنجین پی رہے ہیں،(حالاں کہ لیموں بھی سستے نہیں) اور نمازِ مغرب کے بعد کھانا کھالیتے ہیں، جب کہ پہلے ہم افطار میں بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔

اِسی طرح سحری کا مینیو بھی محدود کردیا ہے۔‘‘ ایک ایسے وقت میں، جب عام دنوں کا دستر خوان ہی محدود ہو گیا ہو، آٹے، دال چاول کی ہول ناک گرانی کی وجہ سے لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی ترس رہے ہوں، تو ماہِ رمضان میں بھی روزہ داروں کو اپنا دستر خوان محدود سے محدود تر کرنا پڑ رہا ہے۔

اِس ضمن میں عبدالقیوم نے کہا کہ’’ کھجوروں، بیسن، آلوؤں، مرچ مسالوں اور خوردنی تیل وغیرہ کی قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں کہ اُن کی خریداری بے حد مشکل ہوچُکی ہے، تو اس سے روزہ دار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ البتہ، غریبوں کے لیے ایک اُمید کی کرن یہ ہے کہ متعدّد مخیّر اور خدا ترس افراد اِس ماہِ مقدّس میں افطار دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیں، جس سے کئی ضرورت مند فائدہ اُٹھاتے ہیں۔‘‘

رمضان میں منہگائی روایت بن چُکی ہے

مُلکی معیشت کی بدحالی کے سبب جنم لینے والی منہگائی اپنی جگہ، لیکن حالات اگر اچھے ہوں، تب بھی تاجر رمضان المبارک میں نرخوں میں مَن مانا اضافہ ضرور کرتے ہیں، گویا اِس ماہ میں منہگائی ایک فیشن اور روایت ہے، حالاں کہ دنیا میں تاجر ایسے مذہبی تہواروں کے موقعے پر اشیائے ضروریہ پر خصوصی رعایتی پیکیجز دیتے ہیں، مگر پاکستان میں ماہِ رمضان اور عیدین پر اکثر تاجر، دُکان دار اور دیگر کاروباری افراد مصنوعی منہگائی پیدا کرکے عوام کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔

ماہِ رمضان سے پہلے کھجوروں، آلوئوں، بیسن، پیاز، پھل اور دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی عام ہے۔ اِس مہینے مختلف اشیاء کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ناجائز منافع خور اس سے خُوب فائدہ اُٹھانے کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ سموسوں، کچوریوں، فروٹ چاٹ، پھلوں اور مشروبات کی قیمتیں دُگنی ہو جاتی ہیں۔ پھر بعض دکان دار ملاوٹ شدہ اشیاء بھی فروخت کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ وہ خلافِ دین ہتھکنڈے ہیں، جو رمضان المبارک کو کہیں منہگا بنا دیتے ہیں، لیکن جب عوام پہلے ہی منہگائی کے عفریت میں جکڑے ہوئے ہوں،تو تاجروں اور دُکان داروں کا یہ طرزِ عمل روزہ داروں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتا ہے۔ 2023ء کا رمضان المبارک کچھ ایسے ہی حوصلہ شکن حالات سے دو چار ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان اِن تکلیف دہ حالات سے دو چار کیوں ہوا اور اس نہج پر پہنچا کیسے کہ روزہ داروںتک کو اسلامی تعلیمات اور روایات پر عمل کرنے میں سہولتوں اور آسانیوں کی بجائے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ماہر معاشیات، پروفیسر ڈاکٹر محمّد شریف علوی نے اِس سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ’’ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم شروع ہی سے پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ رہی ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ 75سالوں میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا گیا۔ مُلکی وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، جس کی شرح صرف 15، 20 فی صد ہے، جب کہ باقی 80فی صد لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں صاف پانی، صحت اور تعلیم تک سے سے محروم ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر سال رمضان المبارک اور دیگر اسلامی تہواروں کے موقعے پر منہگائی کا ایک طوفان آجاتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’مَیں کوئی لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ فروری 2023ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سیاست دان امیر ہو گئے اور عام پاکستانی غریب۔ رپورٹ کے مطابق ،ارکانِ اسمبلی کی مجموعی دولت میں 85فی صد اضافہ ہوا، جب کہ ایک عام پاکستانی کی فی کس آمدنی ایک ہزار 641ڈالر سے کم ہو کر ایک ہزار 497 ڈالر رہ گئی۔ اِس کے برعکس، گزشتہ 5سال میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ایک ہزار، ایک سو ستّر ارکان کے مجموعی اثاثے 49ارب سے بڑھ کر 91ارب ہو گئے۔‘‘

سرکاری پیکیجز بھی فائدہ مند نہیں

ماضی کی طرح اِس بار بھی وفاقی حکومت نے روزہ داروں کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے 5ارب کے پیکیج کا اعلان کیا ہے، لیکن اِس بار بھی اس کی افادیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اوّل تو یہ رقم کثیر آبادی کے لیے ناکافی ہے، پھر یہ کہ اشیاء کی تقسیم اور معیار پر بھی ہمیشہ سے سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ اِس بار رمضان ریلیف پیکیج دو طقبات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ارب 15کروڑ روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے اور تین ارب 84 کروڑ عام صارفین کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

مجموعی طور پر 19اشیاء پر ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا، جن میں گھی، آٹا، چینی، دالیں، کوکنگ آئل، کھجور، مشروبات، مرچ مسالے اور چائے کی پتی وغیرہ شامل ہیں، لیکن ماضی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کا سامان عام مارکیٹ میں فروخت ہوتا رہا ہے۔ نیز، عوام کی اکثریت مختلف وجوہ کی بنا پر یوٹیلیٹی اسٹورز کا رُخ نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، حکومت رمضان المبارک اور عید کے دَوران اشیاء کی مصنوعی قلّت، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور قیمتوں میں بے لگام اضافے کے خلاف کسی قسم کا اقدام نہیں کرتی، سرکاری پرائس لسٹ پر کبھی عمل نہیں ہوتا اور دُکان دار مَن مانی قیمتوں پر غیر معیاری اشیاء فروخت کرتے ہیں۔

اِن حالات میں پاکستانی عوام صبر اور شُکر سے کسی نہ کسی طرح ماہِ مبارک کے دینی تقاضے تو پورے کر ہی لیں گے، لیکن اُنہیں منہگائی کے ایک اور عفریت کا سامنا کرنا پڑے گا، جو عید الفطر کی صُورت اُنہیں نظر آ رہا ہے۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ اکثر تاجر اور دُکان دار حسبِ معمول رمضان کی کسر عید پر اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرکے پوری کریں گے اور عوام کو منیر نیازی کے اِس شعر کے مِصداق حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو…مَیں ایک دریا کے پار اُترا، تو مَیں نے دیکھا۔