پی ڈی ایم بمقابلہ اتحاد فی سبیل اللّٰہ

March 21, 2023

سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا قیام، مشترکہ حکومت یا مضبوط مزاحمتی اپوزیشن کے بڑے مقاصد کیلئے دنیا بھر کے جمہوری معاشروں کی عام ریت ہے۔ امریکہ دنیا کی واحد جمہوری مملکت ہے جہاں صرف ملک کی دو ہی بڑی جماعتیں حصول اقتدار کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ باقی دنیا کے تمام آزاد جمہوری ممالک میں انتخابات میں سب سے زیادہ اکثریتی جماعت کا بھی چھوٹی پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اشتراک و اتحاد سے حکومت بنانا معمول ہے۔ بھارت کے ابتدائی تین عشروں میں کانگریس تنہا اتنی سکت کی حامل رہی کہ تنہا حکومت بنانے کے قابل ہوتی لیکن آنے والے عشروں میں تشکیل ِحکومت سیاسی اتحادوں کے بغیر ممکن نہ رہی تاہم اب گزشتہ دو انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ اعزازحاصل ہوا کہ وہ بغیر کسی اور پارلیمانی جماعت کے سہارے کے خود ہی اپنی حکومت قائم کرنے کی اہل بنی۔

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کا پہلا ملک گیر اتحاد ’’کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز‘‘کے نام سے ایوب خان کی حکمران کنونشن مسلم لیگ کے مقابل نیم جمہوری حکومت کے قیام کیلئے1965ءکے صدارتی الیکشن میں تب بنا جب COP نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف مادرِ ملت فاطمہ جناح کو اپنا صدارتی امیدوار بنا کر انتخاب میں اتارا۔ اس نے دھاندلیوں کے بڑے الزامات کیساتھ ایوب خان کی کامیابی کے باوجود ایوب عہد کا دبدبہ کم تر تو کر دیا تھا خصوصاً احتجاجی مشرقی پاکستان، کراچی اور حیدر آباد میں اس کی عدم قبولیت کا درجہ خاصا بڑھ گیاتھا۔ دوسرا بڑا سیاسی اتحاد ڈیموکریٹک الیکشن کمیٹی (DAC) ایوب مخالف ملک گیر عوامی تحریک کے دوران بنا جس نے ملک میں فرد واحد کے آئین (1962) کی جگہ متفقہ جمہوری دستور سازی اور اس کے تحت انتخابات کرانے کے مطالبے پر مذاکرات کیلئے ایوب خان حکومت کو مجبور کردیا۔

یہ اتحاد نتیجہ خیزثابت ہورہا تھا کہ عوامی تحریک میں ایجی ٹیشن کا غلبہ ہونے سے پھر ایوب خان نے حکومت جنرل یحییٰ کے حوالے کرکے، ملک پر ایک اور مارشل لا کے تسلط کی راہ نکال کر خود کو اقتدار سے فارغ کرلیا۔ ملک پر نیا غضب ڈھا دیا۔ یہ تو اب مکمل ثابت شدہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی، DAC کے مطالبے پر 1956 کے تحت انتخاب کے کامیاب ہوتے ہوئے مذاکرات کے معطل اور یحییٰ مارشل لا کے تحت ہوئے انتخابات کے نتائج سے پیدا آئینی بحران سے ہوئی۔ اتنے بڑے غضب کے بعد اتنا ضرور ہوا کہ باقیماندہ پاکستان ایک متفقہ (موجود) دستور بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن ابھی سیاسی عذابوں سے جان نہیں چھوٹی۔ نفاذِ دستور کے بعدبھی ایوب دور کی لگی ایمرجنسی کے قوانین کا نفاذ جاری رہا اور بھٹو صاحب دستور سازی اور منظوری کا جائز کریڈٹ لیتے ہی ازخود ڈس کریڈٹ کے مرتکب ہونے لگے، چار سال گزرے تو اپنے بااعتماد ہمرکابوں سمیت اپوزیشن کے خلاف فسطائی حربوں کی عام دیدہ دلیری نے سول آمریت کے سخت ناقابلِ قبول غلبے نے انتخاب کا اعلان ہوتے ہی ایک نیا سیاسی اتحاد راتوں رات بنا دیا، جس نے شمالی لاہور میں جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے جنرل سیکرٹری رفیق باجوہ کے گھر میں جنم لیا۔

بندہ ناچیز نے اپنے اخبار (وفاق) کی اگلی صبح کی اشاعت میں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے قیام کی خبر بارہ بجے مسلم لیگ ہائوس میں ہونے والی مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور کی مشترکہ پریس کانفرنس کے رسمی اعلان سے قبل یعنی تمام ملکی اخبارات سے ایک روز قبل بریک کرنے کا بڑا پیشہ ورانہ اعزاز حاصل کیا۔ تاریخی گواہی کے طور اور نئی نسل کی CONSUMPTION کیلئے خاکسار حلفاً آج کے ’’آئین نو‘‘ کے ذریعے یہ حوالہ ریکارڈ کرا رہا ہے کہ پاکستان قومی اتحاد کے قیام سے بھٹو حکومت اس قدر بوکھلائی کہ اس نے انتخابی مہم کے دوران فسطائیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ لاہور کی حد تک گواہی چشم دید اور ایمان کی حد تک اس کے ملک گیر ہونے کا یقین ناقابل تردید ثبوت کا بھرپور میڈیا آرکائیو ریکارڈ محفوظ ہے۔ بھٹو قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے دوران 28 اور پھر زیادہ دھاندلی زدہ ’’جیتی‘‘ نشستیں قومی اتحاد کو بغیر پولنگ کے آفر کرنے کی بجائے شفاف انتخاب کا مطالبہ مان لیتے تو مارشل لا لگتا نہ تختہ دار پر جاتے، سادہ اکثریت سے حکومت نہ بھی بناپاتے تو تگڑی اپوزیشن کے ساتھ متضاد جماعتوں کے قومی اتحاد کی حکومت کو یقیناً پلٹ دیتے۔ ضیاء دور میں MRD کے اتحاد نے جنرل ضیاالحق کو تقریباً انتخاب کیلئے مجبور کر دیا تھا، سانحہ بہاولپور نہ ہوتا تو الیکشن نے ہونا تھا۔

یہ جو پسر مفتی محمود نے کمال تعصب سے پی ڈی ایم بنائی، ایسا خود غرض اتحاد پاکستان، نہ ہی دنیا کے کسی اورملک میں بنا۔ اس نے تو جو دیا اپنی جماعتوں کودیا۔ نومولود لیڈر اپنے خلاف قابل فہم احتسابی عمل کی بیخ کنی کا بے مثال ٹیلر میڈ قانونی پیکیج اقتصادی بحران میں بھی 85 رکنی مراعات یافتہ کابینہ اور لاحاصل سیر سپاٹے، جھولی میں پڑی نگران حکومت، ریاستی اداروں، سوسائٹی اور خود اپنی ہی جماعتوں کی تقسیم و تفریق اور فقط تنہا اپوزیشن لیڈر کو کچلنے کیلئے فسادِ فی سبیل اللہ، مقابل ہیں عوام جنہیں پی ڈی ایم نے ریلیف کیلئے اپنے ’’مسیحائے معیشت ‘‘کو لندن سے نہ جانے کیسے بلایا۔ جنہوں نے ملکی معیشت کا بھٹہ ہی بٹھا دیا اور مہنگائی کی اذیت جاننی ہے تو اس کے خلاف تین لانگ مارچ کرنے والے پی ڈی ایم کے لیڈر بھیس بدل کر بازاروں، دکانوں پر آ کر خالی خولی گاہکوں کو لوٹتے ہوئے اور’’خراج پیش کرتے سنیں‘‘ آخری امید دولت راج کے ہر حربے اور ظلم و ستم کے مقابل بڑے مقصد کیلئے بلاغرض عوام کا اتحاد فی سبیل اللّٰہ ہے جو اتحادی سیاسیوں کے مقابل اپنی مثال آپ ہے۔ یہ وہ اتحاد ہے جس میں دولت راج کے ضمیر جاگے بھی اپنی جگہ کی تلاش میں ہیں۔ سمجھ سکو تو سمجھ لو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)