مجھے یاد ہے ذرا ذرا

March 21, 2023

آج کی کہانی پاکستان کے اس خاموش مگر تہلکہ خیز دور کی کہانی ہے جب سڑکوں، چوراہوں، گلی کوچوں میں طے ہورہا تھا کہ پاکستان کس کیلئےبنا تھا۔ پاکستان میں رہنے کا حق کس کو ہے اور کس کو پاکستان میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ وہی دور تھا جب مخصوص طبقے سے وابستہ گنتی کے لوگ یہ طے کررہے تھے کہ پاکستان میں کس نوعیت کی شاعری ہونی چاہئے، کس نوعیت کے اور کس کس موضوع پر افسانے اور ناول لکھے جانے چاہئیں۔ مصوری پر پابندی لگنی چاہئے۔ مصوروں اور مجسمہ سازوں کو ملک بدر ہونا چاہئے۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ نظریاتی ملک میں ناچ گانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ نصاب میں طالب علموں کو کیا پڑھانا چاہئے، کیا پڑھانے اور سکھانے سے اجتناب کرنا چاہئے، اس کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا، کس قسم کی سوچ پر پہرےبٹھا دیے جائیں اور کس قسم کی سوچ کو عوام پر مسلط کیا جائے، اسکا فیصلہ بھی ہوچکا تھا۔ مخصوص طبقہ کی خواہش تھی کہ پاکستان کے لوگ صرف انکی طرح سوچیں بلکہ سوچنے سے ہی باز رہیں۔ سنی سنائی باتوں پر اعتبار کریں، دنیا کو ان کی آنکھ سے دیکھیں، ان کی طرح رٹی رٹائی دیو مالائی کہانیوں جیسے قصے دہرائیں، سنیں اور سنائیں۔

معاشرے میں سنی سنائی باتوں پر سوچنے، ان باتوں کو سمجھنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ ایک نظریاتی ملک میں کمیونسٹ، دہریوں اور ملحدوں نے ماحول کو غلیظ کردیا ہے۔ اس غلاظت سے ملک کو پاک و صاف کرنے میں حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ لہٰذا اس کا بیڑا ہم نے اٹھا لیا ہے۔ ہم اس ملک کو غلاظت سے پاک کرکے دکھائیں گے۔ واقعی کوئی وجہ توہے کہ ہمارے یہاں کرشن چندر پیدا نہیں ہوتے۔ اچانک اونگھتے ہوئے قانون نے کروٹ بدلی۔ اس دور میں قانون سے انحراف کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کیلئے ایک ہی ادارہ ہوتا تھاجس کا نام سی آئی ڈی تھا۔ اسکے اہل کارخفیہ طریقے سے کام کرتے تھے۔ آج کل اس نوعیت کے اداروں کی ملک میں بھرمار ہے۔ اب تو پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کا پیچھا کررہا ہے۔ جس رکشہ یا ٹیکسی میں آپ سفر کررہے ہوتے ہیں، اس کا ڈرائیور کسی خفیہ ادارے کا مخبر نکلتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ غسل خانے میں بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ آپ کے بیڈ روم میں مخفی کیمرے لگے ہوئے ہوتے ہیں مگر آپ مرتے دم تک بے خبر ہوتے ہیں۔ آپ کو پتہ تب چلتا ہے جب حکومت وقت سے آپ کی ان بن ہوجاتی ہے۔ آپ کے بیڈ روم میں آپ کی حرکتوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہے۔ میں ادوار کا موازنہ کرسکتا ہوں کیونکہ ملک کی 75سالہ تاریخ کا ہر دور میں نے دیکھا ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر بحث دور کا سی آئی ڈی والوں کا محکمہ موجودہ دور کے ظاہر اور مخفی سی آئی ڈی قسم کے نامعلوم اداروں سے زیادہ موثر تھا۔ ایک مثال سن لیجئے، میں اور میرا دوست اقبال ملتانی کراچی کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب دلربا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے اور ناشتہ کرنے کے بعد کڑک گولی مار چائے پی رہے تھے۔ برصغیر کے بٹوارے سے پہلے کراچی کے ہر ایک ڈھابہ قسم کے ہوٹل پر کڑک گولی مار چائے ملتی تھی۔ بٹوارے نے کراچی کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ کراچی سے غائب ہونے والی چیزوں میں کڑک گولی مار چائے سرفہرست تھی۔ چائے میں گاڑھا دودھ ڈال کر خوب دیر تک پکایا جاتا تھا۔ کھولتی ہوئی چائے کپ ساسر کی بجائے چھوٹے چھوٹے شیشے کے گلاسوں میں انڈیلی جاتی تھی۔ چائے پر ملائی یا بالائی کی تہہ لگاکر گاہک کو دی جاتی تھی۔ ہم دونوں دوست اقبال ملتانی اور میں مزے سے کڑک گولی مار چائے کی چسکیاں بھر رہے تھے اور ادھر ادھر کی بے مطلب باتیں کرتے ہوئے ماحول کا جائزہ لے رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہم سے زیادہ فاصلے پر دو مشٹنڈے بیٹھے ہوئے تھے اور بہت دیر سے اقبال اور میری طرف گھور رہے تھے۔ ایک مشٹنڈا جوکہ دوسرے مشٹنڈے سے موٹا تھا، وہ صفاچٹ تھا۔ صفاچٹ کا مطلب ہے کلین شیو تھا، یعنی اس کی داڑھی، مونچھیں نہیں تھیں۔ دوسرا مشٹنڈا جوکہ گندمی رنگ کا تھا اور موٹے مشٹنڈے سے تگڑاتھا، اس کے چہرے پر گھنی داڑھی اور مونچھیں تھیں۔ اس کی پھیلی ہوئی ناک کے نتھنے دیکھ کر آپ اندازہ لگاسکتے تھے کہ غصہ اس کی ناک پر رکھا ہوا تھا۔ میں نے اقبال ملتانی سےکہا، ’’وہ دونوں آدمی اپنے ڈیل ڈول سے سی آئی ڈی کے لوگ لگتے ہیں، بہت دیر سے ہمیں گھور رہے ہیں۔‘‘ اقبال نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی کرسیوں سے اٹھے اور ہماری طرف آنے لگے۔ قریب آکر دونوں خالی پڑی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ میں نے ڈر کے مارے ہکلاتے ہوئے کہا،’’ہم وہ نہیں ہیں، جو آپ ہمیں سمجھ رہے ہیں۔‘‘ دونوں مشٹنڈوں نے غضب ناک نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے گھبراتے ہوئے کہا۔ ’’یہ میرا دوست اقبال ہے، ملتان کا رہنے والا ہے، کراچی میں ملتانی حلوہ بیچتا ہے۔‘‘ دونوں مشٹنڈے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ میں حالات دگرگوں محسوس کرنے لگا۔ میں نے کہا۔ ’’میرا نام لطیف پکوڑائی ہے۔ میں کمال کے پکوڑے بناتا ہوں۔‘‘’’تیرے خلاف ہمارے پاس اچھا خاصا مواد ہے۔‘‘ صفاچٹ مشٹنڈے نے کہا۔ ’’ہم تجھے اچھی طرح جانتے ہیں لطیف۔ تونے ہی کہا تھا نا کہ روزے اور نماز اچھے کام ہیں مگر وہ آگہی کچھ اور ہے جس سے مالک ملے۔ تیرے کو تو ہم بلاسفیمی میں پکڑیں گے۔‘‘’’ایسا غضب مت کرنا‘‘ میں نے گڑگڑاتے ہوئے کہا، ’’یہ شعر صوفی شاعر شاہ لطیف بھٹائیؒ کا ہے۔ میں لطیف پکوڑائی ہوں۔ میں شعر و شاعری نہیں کرتا۔ میں پکوڑے بیچتا ہوں۔‘‘’’تو، تو ہمیں مفت میں ہتھے چڑھ گیا ہے لطیف‘‘ موٹے مشٹنڈے نے کہا۔ ’’آج تو ہم اقبال کو پکڑنے آئے ہیں۔ بغاوت کی باتیں کرتا ہے، کہتا ہے، جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی ....اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو ‘‘ اگلے منگل کے روز میں آپ کو بتلائوں گا کہ سی آئی ڈی والوں نے لطیف پکوڑائی اور اقبال ملتانی کے ساتھ کیسا رویہ اختیار رکھا۔