گمشدہ سیاسی کارکنوں کا مسئلہ

March 22, 2023

پاکستان کی ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن محترمہ حنا جیلانی سےسندھ کے گمشدہ سیاسی کارکنوں کے متاثرہ خاندانوں نے فریاد کی کہ مالی طور پران کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کراچی جاکر گمشدہ افراد کےلئے بننے والے کمیشن کے سامنے پیش ہوں، لاڑکانہ کے دورے کے دوران ان متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتوں کےبعد ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن و دیگر ارکان نے یہ محسوس کیا کہ سندھ میں گمشدگیوں کے بہت زیادہ واقعات ہوئے ہیں،ان خاندانوں نے ہیومن رائٹس کمیشن کی کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ جب وہ یہ کیس کمیشن کو پیش کرتے ہیں تو انہیں نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز آتی ہیں۔ ایچ آر سی پی کے ذرائع کے مطابق کمیشن کی چیئرپرسن نے لاڑکانہ میں گمشدہ افراد انصاف دایو اور مرتضیٰ جونیجو کے متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا، ایک اہم انکشاف یہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے جنوری 2022ء کے پہلے ہفتے میں ایک اہم پریس کانفرنس میں بتایا کہ گمشدہ کئے گئے افراد کے بارے میں ایک بل قومی اسمبلی کی متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے پاس کیا گیا مگر ان کے مطابق جب یہ بل سینیٹ کو بھیجا گیا تو غائب ہوگیا، مگر ’’اب اطلاعات آرہی ہیں کہ یہ بل سینیٹ کے پاس پہنچ گیا ہے‘‘۔ اس بل کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات کے مطابق یہ بل (Criminal Law Amendment Bill 2021) 8 نومبر 2021 ء کو قومی اسمبلی سے پاس کیا گیا اور اس بل کے تحت پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر میں ترامیم کرنا تھیں۔ اس سلسلے میں موصول مزید اطلاعات کے مطابق یہ بل جون 2021 ء کو اس حکومت کے وزیر داخلہ کی طرف سے متعارف کیا گیا،ابتدائی طور پر اس بل میں ایسی کوئی شق شامل نہیں تھی جس کا تعلق کسی شخص کو گم کرنے کے بارے میں جھوٹی رپورٹ فائل کرنے یا جھوٹی معلومات فراہم کرنے سے ہومگر جلد ہی اس بل میں ایک نئی شق شامل کی گئی جس کے تحت ایسے جرم کو Penal Offence قرار دیا گیا، ایسا جرم کرنے والے کو 5 سال جیل اور 5لاکھ روپے تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اوپر جن موصول اطلاعات کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ اگر درست ہیں تو کئی افسوسناک سوال اٹھتےہیں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ تقریباً دو سال قبل قومی اسمبلی سے جو بل پاس ہوا ، اس پر عملدرآمد کیوں نہ ہو سکا؟ قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد یہ بل سینیٹ میں کیوں پیش نہیں کیا گیا؟ اس قانونی بل کی گمشدگی کی ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت ہے یا موجودہ پی ڈی ایم ہے، اگر اس بل کی گمشدگی کی ذمہ دار گزشتہ حکومت ہے تو موجودہ حکومت کیوں خاموش ہے؟ اس بل کی گمشدگی کی ذمہ داراگر موجودہ حکومت ہے تو پی ٹی آئی کیوں خاموش ہے، کیا یہ سمجھا جائے کہ اس قانون کو منظور نہ کرانے میں دونوں حکومتوں کا کردار ہے اگر واقعی ایسا ہے تو یہ دونوں حکومتیں (پارٹیاں) کس طاقت کے کہنے پر یہ پراسرار کردار ادا کررہی ہیں اگر دونوں حکومتوں کا یہ غیر قانونی، غیر آئینی‘ غیر سیاسی اور غیر اخلاقی کردار ہے تو ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اب تک اس صورتحال کا کیوں سوموٹو نوٹس نہیں لیا، کیا جو لوگ کئی برسوں سے لاپتہ کئے جارہے ہیں وہ اس ملک کے باشندے نہیں ہیں؟ یہ امر باعث توجہ ہے کہ ہماری دونوں حکومتوں میں شامل پارٹیوں کے اس غیر اخلاقی کردار اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اس صورتحال کا سوموٹو نوٹس نہ لینے کے باوجود "International Commission of Jurists" (منصفوں کے بین الاقوامی کمیشن) کے ایک وفد نے حال ہی میں پاکستان میں گمشدگیوں کی تحقیق کے لئے قائم کئے گئے انکوائری کمیشن کی کارکردگی کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ ’’بریفنگ پیپر‘‘ جاری کیا ہے جس میں تفصیل سے اس انکوائری کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے، اس بریفنگ پیپر کے ابتدائی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2021 ء میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے گمشدگیوں کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک کمیشن (سی او آئی ای ڈی) کے نام سے بنایا۔ کمیشن کو ان علاقوں کی بھی نشاندہی کرنا تھی جہاں لوگ گم کئے گئے اور ان حرکتوں کے ذمہ دار افراد و اداروں کی بھی نشاندہی کرناتھی، اس کمیشن کے مینڈیٹ میں کئی بار توسیع کی گئی ،اس بین الاقوامی کمیشن کی طرف سے پاکستان میں گمشدگیوں کے بارے میں پاکستان میں کی جانے والی تحقیقات کے سلسلے میں بھی ایک ’’بریف پیپر‘‘ جاری کیا گیا ہے، اس بین الاقوامی کمیشن میں دنیا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 60ممتاز جج صاحبان اور ممتاز قانون دان شامل ہیں، اس بریف پیپر کے کچھ اہم اقتباسات کے مطابق کمیشن کو گمشدگیوں کے بارے میں سب سے زیادہ کیس پاکستان کے صوبے ’’خیبرپختونخوا‘‘ سے ملے ہیں جن کی تعداد 2862ہے جن میں سے 291 کیسز کا تعلق وفاق کے تحت منتظم کیے جانے والے سابقہ قبائلی علاقوں سے ہے اس کے بعد سندھ سے ملنے والے ایسے کیسز کی تعداد 1618‘ پنجاب سے 1406، بلوچستان سے 509، اسلام آباد سے 291، آزاد کشمیر سے57اور گلگت بلتستان سے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 9 ہے۔