انتخابات ملتوی نہیں ہوسکتے؟

March 24, 2023

نوے دن میں انتخابات نہ کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ توہینِ عدالت میں تو آتا ہی ہے بلکہ یہ آئینی شکنی بھی ہے جس پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اگر انتخابات ملتوی کرنا تھے تو وہ سپریم کورٹ میں جاکر اپیل کرتاکہ ہم ایسے حالات میں الیکشن نہیں کرا سکتے آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں ۔سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟مجھے ایسا لگتا ہے چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ اب وہی کچھ ہوگا جو سپریم کورٹ کے حکم پر خط نہ لکھنے کے جرم میں یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔

ملک میں آئینی بحران آ چکا ہے ۔عمران خان نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ تحریک انصاف اس فیصلے کےخلاف ملک گیرتحریک شروع کرسکتی ہے۔ ملک بھر میں پہیہ جام ہرتالوں کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے ۔جلسے جلوس شہر شہر اور گائوں گائوں شروع ہو سکتے ہیں ۔وہ تمام کام جو پی ٹی آئی پہلے صرف اس لئے نہیں کر رہی تھی کہ کہیں انتخابات ملتوی کرنے کا بہانہ نہ بنا دیا جائے ۔وہ اب یقیناً شروع ہوں گے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا تو عدالت مداخلت کرے گی ۔اب عدالت کیا کرتی ہے ۔اس کا اندازہ اگلے چند دنوں میں ہوگا ۔رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے 90 دن میں شفاف الیکشن کرائے لیکن پنجاب کے الیکشن الگ ہوں تو کیا قومی اسمبلی کے الیکشن کے وقت وہاں کی حکومت اثر انداز نہیں ہو گی؟ پنجاب میں الیکشن پہلے ہوگئے تو قومی اسمبلی کے الیکشن منصفانہ نہیں ہوں گے، پنجاب کے الیکشن کی 30 اپریل کی تاریخ بھی 90 دن کی آئینی مدت سے باہر ہے‘‘۔ ان کے اس بیان سے صاف واضح ہورہا ہے کہ الیکشن اس بنیاد پر ملتوی نہیں کئے گئے جو الیکشن کمیشن نے بتائی ہے۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ نون لیگ کی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ پنجاب میں الیکشن پہلے ہوگئے تو ان کے لئے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنابالکل ہی ناممکن ہو جائے گی کیونکہ انہیں یقین ہے کہ پنجاب میں انتخابات ہوئے توپی ٹی آٹی دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوگی ۔بنیادی مسئلہ صرف یہی ہے کہ کس طرح پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے سے روکا جائے ۔رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں چیف جسٹس سے مخاطب ہوکر یہ بھی کہا ہے کہ ’’ایسا الیکشن جس میں دو صوبوں میں سیاسی اور دو میں نگران حکومت ہو ملک میں عدم استحکام، انارکی اور افرا تفری لائے گا، کیا یہ رائے اس قابل بھی نہیں کہ آپ اس پر غور فر ما سکیں‘‘۔ رانا صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کو مشورہ دیتے کہ وہ سپریم کورٹ میں جا کر یہی درخواست کرے مگر الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو کچھ سمجھا ہی نہیں ۔رانا صاحب کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس وقت بھی دو صوبوں میں نگران حکومتیں ہیں اور دو میں سیاسی حکومتیں ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بابر اعوان نے کہا ہے کہ ’’آئین کے آرٹیکل دوسو اٹھارہ تین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ جنرل الیکشن نوے دن کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔نگراں حکومت نوے دن کے بعد بھی رہ سکتی ہے۔آئین میں نوے دن سے زیادہ نگران حکومت کا تصور ہی نہیں ‘‘۔ماہر قانون شعیب شاہین نے کہا ہے،’’یہ سیدھا توہین عدالت ہے الیکشن کمیشن کی جرأت نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرے ‘‘۔ اسد عمر نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا مستقل موقف رہا ہے کہ آئین میں ان کا اختیار ہی نہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں ۔آج یہ آئین کی کون سی شق ہے جس کی بنیاد پر الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے ‘‘۔جنرل امجد شعیب نے کہا ہے کہ ’’ان پر آرٹیکل چھ لگایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی پاکستان کے آئین کو نہ توڑے‘‘۔الیکشن کمیشن کووکلا کی طرف سے توہین ِ عدالت کا نوٹس بھجوا دیا گیا ہے کہ آپ فوری طور پر اپنا فیصلہ واپس لیںورنہ وکلا توہین عدالت کےلئے سپریم کورٹ میں جائیں گے۔ کچھ وکلا سے یہ بھی معلوم ہوا ہےکہ وکلا آئین کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وکلا ایک بہت بڑی احتجاجی تحریک کی تیاری کر چکے ہیں ۔ ایک آدھ دن میں یہ تحریک شروع ہونے والی ہے۔

یعنی صورت حال بہت گمبھیر ہے۔ مجھے آج معروف وکیل تحسین کاظمی نے حضرت علیؓ کا یہ فرمان سنایا کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ کون کتنا قیمتی ہے تو انہوں نے فرمایا جس میں جتنا احساس ذمہ داری ہو گا وہ اتنا ہی قیمتی ہوگا۔ اب دیکھتے ہیں کہ کون کتنا قیمتی ہے؟