Iqbal in trouble

March 28, 2023

کچھ یادیں، کچھ باتیں، کچھ سانحے ہمیں آخری دم تک یاد رہ جاتے ہیں۔ پچھلے کئی ہفتوں سے میں جس دور کی باتیں آپ سے شیئر Shareکر رہا ہوں، وہ دور کوشش کے باوجود بھلایا نہیں جاسکتا۔ ہمارے ہاں بڑی ڈھٹائی سے تاریخ کو ملیامیٹ کر دیا جاتا ہے۔ آج تک کوئی نہیں جان پایا کہ لیاقت علی خاں کو منظر سے ہٹانے کے بعد آنیوالے سات آٹھ وزرائے اعظم چند دنوں، چند ہفتوں، چند مہینوں کے بعد فارغ کیوں کر دیئے جاتے تھے؟ کراچی کے مالیاتی ادارے جس روڈ پر بنی ہوئی خوبصورت عمارتوں میں کام کرتے ہیں، اس روڈ کا نام میکلوڈ روڈ ہوتا تھا۔ ایک صاحب کو دوماہ دس دن کیلئے پاکستان کا وزیر اعظم لگایا گیا تھا۔ انہوں نے دو ماہ دس دنوں میں ایسے کونسے کارنامے سر انجام دیے کہ میکلوڈروڈ کا نام بدل کر آئی آئی چندریگر روڈ رکھ دیا گیا؟ کئی افرو ایشیائی ممالک میں کھلے عام تاریخ کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں۔ اس ہیبت ناک دھوکہ دہی میں ہم کسی سے کم نہیں۔ آنے والی نسلوں کو نہیں بتایا جاتا کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی اصل وجوہات کیا تھیں۔ سارا ملبہ اپنے دیرینہ دشمن پر ڈال کر، اُن اَن گنت عقوبتوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر مجبور کیا گیا تھا۔ تہتر برس گزر جانے کے بعد آج تک کسی کو پتہ نہیں چل سکا کہ اس شخص کا نام اور عہدہ کیا تھا جس کے حکم پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو پھٹیچر ایمبولینس میں چڑھا کر ماڑی پور ایئربیس سے گورنر ہاوس روانہ کیا گیاتھا؟ ایمبولینس کا ڈرائیور کون تھا؟ کس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ڈرائیور نے گاڑی میں خرابی کا بہانہ بناکر ایمبولنس ماڑی پور روڈ پر عین مہاجر کیمپ کے سامنے روک دی تھی۔ طبی امداد اور کھانے پینے کی عدم فراہمی کی وجہ سے مہاجر غصے میں تھے۔ برہم تھے۔ اس سلسلے میں آپ کو تصدیق کرنے کے لئےکہیں سے کچھ نہیں مل سکتا، کوئی وجہ تو ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے محقق اور تاریخ داں کو دھکیل کردور کردیا جاتا ہے۔ ڈھٹائی سے اپنی من پسند تاریخ کے جھوٹ پر مبنی اوراق قلم بند کروائے جاتے ہیں۔ مگر آپ تخلیقی ادب سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتے۔آپ خوشونت سنگھ کو ناولA train to pakistanلکھنے سے روک نہیں سکتے۔ آپ کرشن چندر کے ناول غدار سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ اس نوعیت کا ادب جھوٹی تاریخ کے خلاف گواہی دیتا ہے۔انیس سوپچاس کے آخری پانچ برس اور انیس سوساٹھ کے ابتدائی پانچ برسوں کے دوران کفر، الحاد اور کمیونزم کا قلع قمع کرنے کا دعویٰ لیکر اٹھنے والے طبقے نے ادب اور آرٹ کو جڑ سے اکھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔نتیجہ ایسا نکلا کہ آج پاکستان میں خالصتاً ادب سے وابستہ ایک بھی ماہوار رسالہ شائع نہیں ہوتا۔کاش کہ اس استحصالی طبقے کے روح رواں آج زندہ ہوتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ پاکستان کا سب سے عزیز اور ہمدرد دوست کمیونسٹ چین ہے۔ ہاں، میں مانتا ہوں کہ انہوں نے ادب اور آرٹ پر ایسی کاری ضرب لگائی تھی،کہ اب پاکستان میں ایسا ادب تخلیق نہیں ہوتا، یا تخلیق ہونے نہیں دیا جاتا، جسے پڑھ کرپڑھنے والوں کی سوچ کے زاویے بدل جائیں۔بدمزہ تمہید ضرورت سے زیادہ طول پکڑ گئی ہے۔ بہتر ہے کہ ہم کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب دلربا ہوٹل کی طرف لوٹ چلیں اور بیچ میں چھوڑی ہوئی کہانی سے رشتہ جوڑیں۔لگتا تھا کہ سی آئی ڈی نے میرے یعنی لطیف پکوڑائی اور اقبال ملتانی کے گرد دائرہ تنگ کردیاتھا۔ ہوٹل کے باہر غیر معمولی قسم کے دوچارمشٹنڈوں کی چہل پہل نے مجھے شکوک میں ڈال دیا۔مجھے لگ رہا تھا کہ کالے رنگ کی ہونڈا یا ٹویوٹا گاڑی قریب کہیں کھڑی ہوگی، اورمشٹنڈے ہمیں گاڑی میں ڈال کر نامعلوم جگہ لےجا کر بدنام زمانہ تفتیش شروع کردیں گے۔ یادرکھیں کہ مشٹنڈے ہمیں کالی گاڑی میں بٹھا کر نہیں لے جاتے۔ وہ ہم پر بدبودار کالے کمبل ڈال کر ، گاڑی میں پھینک کر یا ڈال کرلے جاتے ہیں۔میری سوچ کاسلسلہ تب ٹوٹا جب صفا چٹ مشٹنڈے نے اقبال سے پوچھا۔’’ کس نے تمہیں بتایا ہے کہ پاکستان میں تلخ بہت ہیں بندہ مزدور کے اوقات؟‘‘۔دوسرے مشٹنڈے نے فوراً پوچھا۔’’ اور تم کہتے ہوکہ سرمایہ داروں کا سفینہ ڈوب جائے تاکہ پاکستان میں صنعتوں کا بھٹہ بیٹھ جائے؟‘‘۔

اس سے پہلے کہ اقبال ملتانی کچھ کہتا، صفاچٹ مشٹنڈے نے کرخت لہجے میں کہا ۔’’ اس سےپہلے بھی تم کسان کو بغاوت کے لئے بھڑکا چکے ہو۔کیا کہا تھا تم نے کہ کھیتوں کوآگ لگا دو۔ خوشہ گندم کو جلا دو۔ تم مزدور اور کسانوں کو بغاوت پر بھڑکا رہے ہو۔‘‘

کھسیانی ہنسی ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے کہا۔’’ سر،یہ و ہ والا اقبال نہیں ہے۔ یہ اقبال ملتانی ہے۔ کراچی میں ملتانی حلوہ بیچتا ہے ‘‘۔

دونوں مشٹنڈوں نے گھور کرمیری طرف دیکھا۔ موٹےمشٹنڈے نے مجھے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔’’ تواس کا چمچہ ہے؟‘‘۔گھبرا کرمیں نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر میں کچھ کہہ نہ سکا۔ صفاچٹ مشٹنڈے نے کہا۔’’ تو چپ رہ عبدالطیف تجھے تو ہم بلاسفیمی میں پکڑیں گے۔ تونے ہی لکھا ہے ناکہ بہشت ایک بہلاو ا ہے اور دوزخ محض دہشت ہے… توتو گیا بچو۔‘‘پھر موٹے مشٹنڈے نے اقبال سے کہا ۔’’ تم نے کہا ہے کہ ، جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو۔ تم تخریب کاری کی ترغیب دے رہے ہو مسڑ اقبال۔ اورپیران کلیسا کو کلیساسے اٹھا دو، سے کیا مراد ہے تمہاری ؟‘‘۔اقبال ملتانی نے کہا ۔’’ بھائی ، ملتانی حلوہ بنانے کی ترکیب کے علاوہ مجھے کچھ نہیں آتا‘‘۔

دلربا ہوٹل کے باہر منتظر مشٹنڈے کو صفاچٹ نے اشارہ کیا، دوچار مشٹنڈے دوکالے کمبل لے کر ہوٹل میں داخل ہوئے۔