سوموٹو اختیار؟

March 30, 2023

منگل کے روز قومی اسمبلی میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کے حوالے سے باقاعدہ میکنزم بنانے کا ایک بل پیش کیا گیا جو بعد ازاں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بھیج دیا گیا تاکہ مسودہ قانون کا مزید جائزہ لیا جا سکے۔ قبل ازیں وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اپنے اجلاس میں سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دی۔ انسانی حقوق اور عوامی مسائل کے حوالے سے چیف جسٹس کے مذکورہ اختیار کی افادیت اپنی جگہ ، مگر جیسا کہ وزیر قانون نے اپنی تقریر میں کہا بعض مواقع پر اس اختیارکا استعمال ایسے معاملات میں بھی کیا گیا جہاں اس کی ضرورت پر سوال اٹھتے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رکھنے کی ہے کہ قوانین جہاں اپنے وقت کی سماجی و تہذیبی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں وہاںبدلتےحالات وہ صورتیں سامنے لاتے ہیں جن میں قانونی اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت جس قانونی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی اس کی ایک سے زائد وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن پنجاب اور خیبر پختوانخوا میں الیکشن التوا کے حوالے سے ازخود نوٹس کے یکم مارچ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پیر 27مارچ کو بینچ میں شامل دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے دستخطوں سے 28صفحات پر مشتمل جو فیصلہ سامنے آیا اس کے بعد از خود نوٹس کیس کے باقاعدہ میکنزم کی ضرورت شاید زیادہ روشنی میں آئی۔ ایک ہی بینچ میں شامل جج صاحبان کا چیف جسٹس سمیت برادر ججوں سے اختلاف رائے معمول کی بات ہے مگر اس نوٹ سے یہ نکتہ نمایاں ہوا کہ ’’ازخود نوٹس ، ریگولر و خصوصی بینچ کی تشکیل تمام ججوں کی منظوری سے رولز کی بنیاد پر ایک سسٹم کے تحت ہونی چاہیے۔‘‘ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں جو ترمیمی بل پیش کیا اس کے مطابق از خود نوٹس کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سنیئر ترین ججوں پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کرے گی جو کثرت رائے سے ہو گا ، ازخود نوٹس کیس کے خلاف 30دن میں اپیل دائر ہو سکے گی۔ جو دو ہفتوں میں فکس ہو گی اور جس کی سماعت لارجز بینچ کرے گا۔ منگل ہی کے روز قومی اسمبلی نے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی پیش کردہ ایک قرار داد منظور کی جس میں سیاسی استحکام کے لئے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے، الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہ کرنے اور اجتماعی دانش کے حامل دستوری معاملات کی سماعت فل کورٹ کے ذرریعے کرنے پر زور دیا گیا ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد وخودمختار آئینی ادارہ ہے جو آئین کے آرٹیکل 218کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔ قرارداد میں توقع ظاہر کی گئی کہ اعلیٰ عدلیہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ دستور پاکستان میں تمام اداروں کے دائرہ کار اور اختیارات متعین ہیں۔ جب بھی ان دائروں سے تجاوز کیا جاتا یا ان میں مداخلت کی جاتی ہے، بدمزگی و بدنظمی کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔کئی امور بالخصوص ججوں کے فیصلوں کے حوالے سے اختلاف کے امکانات رہتے ہیں۔ مگر اس اختلاف کو کردار کشی کا ذریعہ نہ بنایا جانا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے مشکل حالات میں مثبت پیش رفت کا راستہ نکالیں۔ ملک کو درپیش موجودہ صورت حال جوش اور گرما گرمی کی نہیں تحمل اوراحتیاط ملحوظ رکھنے کی متقاضی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا درست کہنا ہے کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ قانون و آئین کی پیروی کر نی ہے یا جنگل کا قانون چلنا ہے۔ آئین کی متعین کردہ ریڈ لائنوں کا خیال رکھا جائے اور عدل نظر آئے تو ملک پر خطروں کے بادل چھٹ جائیں گے۔