کِھدوُ کُھل رہا ہے

March 30, 2023

معروف طبلہ نواز عبدالستار تاری سے ہم نے کوئی گت یا قاعدہ تو نہیں سیکھا لیکن ایک نیا لفظ سیکھا تھا۔ دہائیاں پہلے ہمارے گھر واقع شیش محل روڈپرتاری بڑے گویوں کے ساتھ اپنی پر لطف فقرہ بازی کے قصے سنا رہے تھے،اسی دوران تاری نے بتایا کہ ایک دفعہ شدید سردیوں میں وہ شکاگو میں غزل گائیک غلام علی کے ساتھ ایک محفلِ موسیقی سے واپس ہوٹل کے کمرے میں لوٹے، کچھ دیر میں ہیٹر نے رنگ جمایا تو غلام علی نے پہلے اپنا اوور کوٹ اتارا، پھر ایک ہائی نیک سوئیٹر، اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، بہ قول تاری، غلام علی صاحب نے نو عدد لال، نیلی، پیلی اُونی اور سُوتی قمیصیں اور سوئیٹریں ایک ایک کر کے اتاریں،اس رنگین منظر پر تاری کہتے ہیں میرے منہ سے نکل گیا کہ’ ’خان صاحب، تہاڈا تے کِھدوُ ای کُھل گیا اے۔‘‘ کِھدوُ کا لفظ میں نے استاد تاری سے پہلی دفعہ سنا تھا، کھِدوُ پنجابی زبان میں اس گیند کو کہا جاتا ہے جو بہت سی کترنوں کو آپس میں جوڑ کر بنائی جاتی ہے، لڑکے بالے اس سے کئی کھیلیں کھیلتے ہیں، مگر کھیل کے دوران اگر ایک کلیدی گرہ ڈھیلی پڑ جائے تو پورا کِھدوُ کُھل جاتا ہے، گیند غائب ہو جاتی ہے بس رنگ بہ رنگی دھجیوں کا ڈھیر رہ جاتا ہے۔در اصل پوچھنا یہ چاہ رہا تھا کہ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے چاروں طرف رنگ بہ رنگی دھجیاں ہی دھجیاں بکھری ہوئی ہیں، بے وضع، بے ترتیب ، بے کار۔کیا آپ کو ایسا نہیں لگ رہا کہ ایک ایک کترن باندھ کر جو گیند بنائی گئی تھی وہ پھر سے دھجی دھجی ہو رہی ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کِھدوُ کُھل رہا ہے؟

ہماری عدلیہ کبھی کوئی مثالی ادارہ نہیں رہا، اس کے دامن پر آمریت کی سہولت کاری سے حرص و ہوس کی آب یاری تک کےکئی دھبے ہیں جس کے باعث یہ کبھی عوام کے دلوں میں تکریم نہیں پا سکا۔لیکن اب معاملہ اس سے دو ہاتھ آگے بڑھ گیا ہے۔ عدلیہ میں دو رائے کا ہونا کوئی ناقابلِ فہم بات تو نہیں ہے، بلکہ اسے آزادی اظہار کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ عدلیہ کا داخلی جھگڑا قبائلی رنگ اختیار کر گیا ہے، اور قبائلی جنگیں کسی اصول اور قرینے کی پابند نہیں ہوا کرتیں، اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جنگیں حجروں میں نہیں لڑی جاتیں، میدان میں لڑی جاتی ہیں، یعنی ظفرؔ اقبال کی خواہش، کہ’ ’یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہئے ‘‘ بھی پوری کر دی گئی ہے۔آج سے پہلے عدالتوں نے ہر نوع کے فیصلے دیے ہیں، خلافِ آئین فیصلے، آئین شکنوں کے حق میں فیصلے، دبائو میں فیصلے،’ ’ٹرکوں‘‘ کے آگے لیٹ کر فیصلے، ہوٹلوں کے لفافوں میں بھجوائے گئے فیصلے،’ فیضی‘ فیصلے، واٹس ایپی فیصلے، یعنی ہر طرح کا میڈل عدلیہ کے سینے پر سجا ہوا تھا۔مگرایک کسر باقی تھی سو وہ بھی پوری ہو گئی، پہلی مرتبہ ایک عدالتی بنچ نے دو فیصلے دیے ہیں، ایک چار تین سے، ایک دو تین سے۔ جی، ایک ہی کیس میں دو فیصلے۔ میرؔ صاحب یاد آ گئے، فرماتے ہیں ’’کاش کہ دل دو تو ہوتے عشق میں....ایک رہتا ایک کھوتے عشق میں‘‘۔

ہر جنگ کی طرح ’’جدلِ جُبہ‘‘ کا بھی ایک پس منظر ہے۔ قاضی صاحب کی پشت میں ان کے برادر ججوں نے زہر میں بجھا ہوا خنجر اتار دیا،قاضی صاحب کا بچنا ایک معجزہ تھا، ذرا اندازہ لگائیے کہ وہ اکلوتا جج جس نے اپنے اثاثے مشتہر کر رکھے ہیں، اس سے ’’اصحابِ ٹرک‘‘حساب مانگ رہے تھے۔جسٹس شوکت صدیقی کو ان کی دیانت داری کی سزا برادر ججوں نے دی تھی۔پاناما کیس میںتو منصفین نے ستر پوشی کا تکلف بھی نہیں کیا تھا ، قاضی فائز کو کہا گیا کہ آپ عمران خان سے متعلق کوئی کیس نہیں سن سکتے، اور نواز شریف کا ہر کیس ایک ِ غیر مُقدس تکون سنتی رہی، جو کیس چاہا لگایا، جو نہیں چاہا سال ہا سال نہیں لگایا، ایک فرد نے سوموٹو لئے، خود بنچ بنایا، جس میں کبھی سینئر ججوں کو شامل کرنے کا ’رسک‘ ہی نہیں لیا گیا نہ ہی کبھی کسی آئینی مسئلے کو سلجھانے کے لئے فل کورٹ بنایا گیا۔ ادھر باجوہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ کچھ ججوں کے گھر والوں اور گھر والیوں کے کرش کے اثرات بھی عدلیہ کے فیصلوں میں نظر آتے ہوں گے، سر جی نے ٹک ٹاک اور نظامِ انصاف کے باہمی رشتے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ یعنی حد ہی ہو گئی۔ سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر سوچا جائے تو کوئی باہوش شخص چیف جسٹس کے ان لامحدود اختیارات کی حمایت نہیں کر سکتا۔یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، جج صاحبان خود کہہ رہے ہیں کہ ون مین شو روک کر سپریم کورٹ کے اختیارات سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان تقسیم کر دیے جائیں۔ جج خود اپیل کر رہے ہیں کہ ہمارے ادارے کو ایک فرد کی ڈکٹیٹر شپ سے آزاد کروایا جائے۔پارلیمنٹ اس حوالے سے قانون سازی کررہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ پچھلے چھ سات سال میںاس ملک کا ہر بڑا سیاسی بحران بے لگام فیصلوں کا نتیجہ رہا ہے۔حضرتِ ناصر ادیب نے کیا خوب کہا ہے کہ’ ’ات خدا دا ویرہوندا اے نوری‘‘۔

اب پارلیمان قانون بنائے گی اور چیف جسٹس صاحب کہیں گے ’’واہ واہ‘‘ کیا عالی شان قانون سازی فرمائی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہو گا۔ہم سب جانتے ہیں جھگڑا ہو گا، پارلیمنٹ کاقاضی القضاۃ سے یُدھ پڑے گا، سپریم کورٹ کے اندر پنجہ آزمائی ہو گی، عمران خان بندیال صاحب کے حلیف ہوں گے، عساکر کے خلاف مہم تیز تر ہوگی، ایسے میں افواج شاید زیادہ دیر تک دہی کھانے میں مشغول نہ رہ سکیں اور اگراس دوران پاکستان کا دیوالا پٹ گیا تو اس میں ہمارا کیا قصور، یہ تو اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں! امید ہے آپ کو اور کچھ نہیں تو کم از کم ’’کِھدوُ کُھلنے‘‘ کا مطلب اچھی طرح سمجھ آ گیا ہو گا۔