سستی شہرت کا جنون

March 30, 2023

سستی روٹی ،سستا پیٹرول اور اب سستے آٹے کے نام پر سستی شہرت سمیٹی جارہی ہے ۔کیا کبھی کسی نے یہ غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ سستی اسکیمیں قومی خزانے کو کتنی مہنگی پڑتی ہیں ؟ غریب کے گھر اگربجلی کا بل باقاعدگی سے پہنچ سکتا ہے تو آٹے کا تھیلا لینے کیلئے اسے جان ہتھیلی پرلے کر ہجوم میں جدوجہد کیوں کرنا پڑتی ہے؟کیا کسی حکمران کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟غربت کے خاتمے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت جتنی اسکیمیں چل رہی ہیں ،سب بے کار اورفضول ہیں۔کسی دن چند گھنٹے کسی اے ٹی ایم کے پاس کھڑے ہوکر محض یہ مشاہدہ کرلیں کہ کس قسم کے لوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پیسے نکلوانے آتے ہیں اگر شعبدہ بازی کے بجائے واقعتاً کچھ کرنا ہے تو غربت کی چکی میں پس رہے عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونےکیلئے روزگار فراہم کرنے میں مدد فراہم کریں،آسان شرائط پر چھوٹے قرضے دیں تاکہ وہ ہاتھ پھیلانے کے بجائے معاشرے کے باعزت شہری بن سکیں۔عام آدمی کو سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں تو اسے بجلی کے بل میں چھوٹ دیدیں۔مثلاً گھریلو صارفین کیلئے 100یونٹ تک بجلی مفت دے دی جائے۔وہی سبسڈی جو آٹے،پیٹرول یا کسی اور مد میں دینا چاہتے ہیں ،اس طرح براہ راست ضرورت مند تک پہنچ جائےگی اور انہی پیسوں سے وہ کچن چلانےکےقابل ہوجائے گا۔100سے 300 یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین یعنی وہ افراد جو ایئر کنڈیشنر خریدنے اور چلانے کی استطاعت نہیں رکھتے ،انہیں رعائتی نرخوں پر بجلی دیدی جائے۔لیکن شاید اس طرح سستی شہرت نہیں ملتی۔ ضرورت مندوں میں حاتم طائی کی طرح خیرات تقسیم کرتے ہوئے تصویریں نہیں بنتیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اب ایک اور شعبدہ بازی کا اعلان کردیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس طرح ان کے دورِ حکومت میں پنجاب حکومت نے طالب علموں میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے تھے اسی طرح اب ’’پرائم منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم‘‘ کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے تحت نوجوانوں میں ایک لاکھ لیپ ٹاپ مفت بانٹے جائیں گے۔اگر آپ کے پاس وسائل ہوں تو لیپ ٹاپ تو کیا نوجوانوں کو موٹر سائیکل اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن ایک طرف ملکی معیشت بستر مرگ پر ہے ،ملک پائی پائی کا محتاج ہے،ہم دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑے ہیں ،الیکشن کروانے کیلئے بجٹ نہیں اور دوسری طرف محض سیاسی شہرت کیلئے مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست تعلیم کے حوالے سے اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے ۔آئین کے آرٹیکل 25Aمیں’’حق تعلیم‘‘ سے متعلق واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔‘‘اس شق میں Shallکا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی کسی جواز یا عذر کی بنیاد پر اس ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی۔یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ ریاست میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بنائے گی ،اعلیٰ تعلیم کیلئے فنڈز مہیا کرے گی ،لیپ ٹاپ دے گی یا پھر کوئی اور سہولت فراہم کی جائے گی۔یہاں بنیادی تعلیم کا ذکر ہے کہ یہ مفت اور لازمی ہوگی۔پوری دنیا میں یہی دستور ہے کہ بنیادی تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے جبکہ پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیم اپنے پیسوں سے حاصل کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ریاست کو فرض نماز کے بجائے نوافل کی فکر کھائےجارہی ہے۔ پاکستان میں سرکار کے زیر انتظام چل رہے میڈیکل کالج جتنے کم پیسوں میں MBBS کی ڈگری کروارہے ہیں، اس کی دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔یہی ڈاکٹر جب امریکہ جاکر لاکھوں ڈالر کماتے ہیں اور اس آمدنی پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے کیلئے چند ڈالر کی خیرات ہمیں دیتے ہیں تو یوں احسان جتلاتے ہیں جیسے ان جیسا سخی اور دریادل کوئی نہیں ۔بہر حال اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی۔فی الحال تو اس حوالے سے تعجب ہورہا ہے کہ جس ملک میں بنیادی تعلیم کا فقدان ہے، وہاں لیپ ٹاپ مفت تقسیم کئے جارہے ہیں ۔

نیشنل کمیشن آن دا رائٹس آف چائلڈ(NCRC)کےمطابق 5سے16سال تک کی عمر کے 22.8ملین بچوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔یعنی 44فیصد بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے کسی ٹائر شاپ ،ہوٹل ،گھر یا مارکیٹ میں مزدوری کررہے ہیں ۔آئوٹ آف اسکول چلڈرن کی شرح کے حساب سےپاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پرہے۔بلوچستان میں ریاست سب سے زیادہ ناکام دکھائی دیتی ہے جہاں 59فیصد یا یوں کہئے کہ تین میں سے دو بچوں کو اسکول کی سہولت دستیاب نہیں۔سندھ میں 42فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں 31فیصد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ پنجاب جسے سب سے ترقی یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے وہاں بھی 15فیصد بچے اسکول نہیں جا پاتے۔سرکاری اسکولوں کے حالات ایسے ہیں کہ چند برس قبل مجھے شوق چرایا کہ اپنے بچوں کوسرکاری اسکول میں داخل کروائوں مگر لاہور جو صوبائی دارالحکومت ہے وہاں ایک پرائمری اسکول کا ماحول دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگالیا۔کہیں چار دیواری نہیں ،کہیں واش روم نہیں ،کہیں فرنیچر کی کمی ہے،کہیں ایک کمرے کو ہی اسکول کا درجہ دے دیا گیا ہے،کہیں اساتذہ دستیاب نہیں تو کہیں اساتذہ کی قابلیت و صلاحیت پر سوالیہ نشان ہے۔مگر اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے آپ لیپ ٹاپ بانٹنے کی نوٹنکی کررہے ہیں ؟یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس گھر میں بچوں کو دو وقت کی روٹی دستیاب نہیں ،آپ وہاں ان کی بھوک کی پروا کئے بغیر چند نوجوانوں کو برگر اور پیزا کھلانے کااہتمام کر رہے ہیں۔اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ اس طرح نوجوانوں کا سیاسی رجحان یا وابستگی تبدیل کی جاسکے گی تو پہلے کوئی مستند سروے کروالیں ۔پنجاب میں آپ نے جو لیپ ٹاپ تقسیم کئے تھے ،وہ ابھی تک آپ کے خلاف ہی ٹرینڈ بنانے اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے کیلئے استعمال ہورہے ہیں۔