بلوچستان کا تاریخی شہر، سبی

May 28, 2023

عبدالقادر رند، سبّی

برطانوی دورِ حکومت میں شعبۂ تعلیم پر خصوصی توجّہ دی گئی، اِسی سلسلے کی ایک کڑی، سبّی کا اینگلو ورینکلر مِڈل اسکول ہے، جو 1882ء میں قائم کیا گیا اور اس کے لیے فنڈز میونسپل بورڈ سے منظور کروائے گئے۔یہاں 1884ء میں ایک سندھی کلاس کا بھی اضافہ کیا گیا۔واضح رہے، 1889ء میں کوئٹہ اینگلو ورینکلر اسکول کے 9اساتذہ میں ایک سندھی استاد بھی شامل تھا، جس کی تن خواہ 40روپے ماہ وار مقرّر تھی۔ 1889ء میں سبی اسکول کے لیے ایک شان دار عمارت تعمیر کی گئی، جس پر 3 ہزار615 روپے کی لاگت آئی۔ اس کا باقاعدہ افتتاح تاجِ برطانیہ کے نمائندے، ایجنٹ ٹو گورنر جنرل، مسٹر ہیوج شیکسپیئر بارنس نے کیا۔

ایک اجلاس میں اس اسکول کو سرہیوج شیکسپیئر بارنس کا نام دینے کی منظوری دی گئی،جو 1898ء تا 1900ء بلوچستان میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل رہے۔مغربی سمت سے مرکزی داخلی دروازے کے عین مقابل مرکزی عمارت ہے۔اس میں ہیڈ ماسٹر کا دفتر، اسکول کے دیگر عملے کے لیے کمرے اور ایک کشادہ ہال بنایا گیا، جب کہ گرمی کی شدّت سے بچنے کے لیے اس کے چاروں طرف کُھلے برآمدے تعمیر کیے گئے۔ کلاس رومز بیرونی دیوار کے ساتھ بنائے گئے۔جب ہم 1975-76ء میں یہاں پڑھتے تھے، تو کبھی دیر ہوجاتی، تو نشتر روڈ کی جانب ،کلاس رومز کی ٹوٹی کھڑکی سے اندر داخل ہوتے۔

مگر آج اسکول کی بیرونی سمت کی طرف زمین پر قبضہ کرکے دکانیں تعمیر کر لی گئی ہیں، جن سے اسکول کی خُوب صُورتی متاثر ہو رہی ہے۔1911ء میں اِس عمارت کو باقاعدہ محکمۂ تعلیم کے سپرد کیا گیا۔ 1912ء میں بارنس ہائی اسکول میں طلبہ کی رہائش کے لیے ایک بورڈنگ ہائوس تعمیر کیا گیا،جس پر 18595 روپے کی لاگت آئی ۔1962ء میں فنی تعلیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے پائلٹ سکینڈری اسکول پراجیکٹ شروع کیا گیا، جس کے تحت بلوچستان بَھر میں2 پائلٹ اسکول بنائے گئے، ایک سبّی میں اور دوسرا مستونگ میں۔

اِس طرح اسکول کا نام بدل کر پائلٹ سکینڈری اسکول سبّی رکھ دیا گیا اور یہاں طلبہ کی فنی تربیت کے لیے مختلف شعبے قائم کیے گئے، جن میں میٹل ورکس، وڈ ورکس اور الیکٹریکل( بجلی وائرنگ) کے شعبے شامل تھے۔ اُس وقت کے لحاظ سے یہ ایک بہترین فیصلہ تھا کہ طلبہ یہ ہنر سیکھ کر با آسانی روزگار حاصل کر سکتے تھے، کیوں کہ ہنر مند کبھی بے روزگار نہیں رہتا۔ 1987ء میں ایک نیا تعلیمی پراجیکٹ شروع ہوا، جس کے تحت ہر ضلعے میں ایک ماڈل اسکول بنانا تھا اور یوں اِس اسکول کا تیسرا جنم ہوا کہ یہ ماڈل ہائی اسکول، سبّی بن گیا۔ اُن دنوں نجی اسکولز زیادہ نہیں تھے، تاہم بعد میں پرائیویٹ اسکولز نے سرکاری اسکولز کو شدید متاثر کیا۔

ایک وقت تھا، جب سرکاری اسکولز میں افسران، معزّزینِ شہراور تاجروں کے بچّے عام محنت کشوں کے بچّوں کے ساتھ ایک جیسے یونی فارم میں ٹاٹ یا بینچز پر بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ اسکولز کا نظم و ضبط اور تعلیمی ماحول مثالی ہوتا، صبح اسمبلی کے بعد قطار میں کھڑے بچّوں کے کپڑے، دانت اور جوتے وغیرہ چیک کیے جاتے کہ صاف ہیں یا نہیں۔ بچّوں کے سر، سرسوں کے تیل کے سبب دھوپ میں چمک رہے ہوتےاور مجھ جیسے بچّوں کے سَروں سے تو ضرورت سے زاید تیل گرمی کے سبب پیشانی اور کنپٹیوں پر بہہ رہا ہوتا۔ بچّے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کا رُخ نیچے کرکے کھڑے ہوتے اور کلاس انچارج لائن سے گزرتے ہوئے ناخن چیک کرتے۔

اُس زمانے میں ٹیوشن کا بھی کم ہی رواج تھا، البتہ بعض اساتذہ کسی معاوضے کے بغیر شام کے اوقات میں بچّوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ جب بچّے امتحان پاس کرکے نئی کلاس میں جاتے، تو وہ اپنی جِلد کی ہوئی کتابیں کسی دوسرے بچّے کو آدھی قیمت پر فروخت کر دیتے اور خود بھی آدھی قیمت پر نئی کلاس کی کتابیں خریدتے۔ اس کے علاوہ، کئی بچّے اپنی کتابیں اسکول کی لائبریری میں جمع کرواتے تاکہ وہ غریب بچّے، جو کتابیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، مفت کتابیں لے لیں۔ 1933ء میں چَھپنے والی ایک کتاب، جو بارنس اسکول کے نصاب کا حصّہ تھی، اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔اسکول میں مشرق کی سمت جرگہ ہال ہے، جس کا اصل نام’’ کوئین وکٹوریہ ہال‘‘ ہے۔ اِسی سمت کے آخری کمرے میں اسکول کی ایک شان دار لائبریری ہوتی تھی،جس کی ہفتے میں دو کلاسز ہوتیں۔ وہاں ہیوج شیکسپیئر بارنس کی ایک تصویر بھی آویزاں تھی، جو اب دیمک کی نذر ہوچُکی ہے۔ طلبہ کو لائبریری کے کارڈ پر کتابیں جاری کی جاتیں۔

میرے والد، میر عطا محمّد نے گورنمنٹ بارنس ہائی اسکول سے 1937ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور اُن کی جماعت دھم کا گروپ فوٹو ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ والد صاحب کے اسکول چھوڑنے کے سرٹیفیکٹ پر ہیڈ ماسٹر، دوست محمّد کے دست خط ہیں، جو اُن کے کچھ عرصہ استاد بھی رہے۔ لہڑی کے سردار چاکر خان بھی اُن کے شاگرد تھے۔ بعدازاں، والد صاحب پی اے، سبّی میں محرّر بھرتی ہوئے۔ جَھٹ پَٹ، ڈیرہ بگٹی اور سبّی میں رہے اور 1977ء میں ریٹائر ہوئے۔ مَیں نے گورنمنٹ پائلٹ اسکول، سبّی سے تعلیم حاصل کی۔

اُس زمانے میں سبّی سے کوئٹہ جانے والی بس صبح سویرے میر چاکر روڈ کی جانب سے لیاقت بازار میں داخل ہوتی اور نشتر روڈ چوک سے ہوتے ہوئے ہرنائی پھاٹک سے آگے بڑھ جاتی۔ ایک دن اسکول کا ایک طالبِ علم بس کی زَد میں آکر جاں بحق ہوا، تو پھر اُس دن کے بعد سے بس کے لیے لیاقت بازار میں داخلے کی ممانعت کر دی گئی۔ ہم، یعنی مَیں، منیر احمد مَری اور اعجاز احمد مرغزانی چاکر روڈ کے بابو محلّے میں رہائش پزیر تھے۔ گنپت رائے روڈ یا ریزیڈنسی روڈ سے کپڑے کے بنے بستوں میں کتابیں اُٹھائے اسکول جاتے اور جرگہ ہال کے اندر سے ایک بغلی دروازے کے ذریعے اسکول میں داخل ہوتے۔ نشتر روڈ کی سمت سے اسکول کا آخری کمرا، ڈرائنگ روم تھا۔

ہمارے اساتذہ میں محمّد ہاشم دہپال، ظاہر مرغزانی، سرفراز، شاہ نواز مرغزانی، قربان مَری، محمّد رفیق، محمّد رمضان جمالی( بجلی والے)، پی ٹی آئی امیر کابل اور ہیڈ ماسٹر سلطان محمود شامل تھے۔اسکول کی مغربی سمت کی جانب، جہاں مرکزی داخلی دروازہ تھا، میر خدائیداد خان مرغزانی کی رہائش گاہ تھی۔ میر شیر محمّد خان مَری اکثر اُن کے ہاں مہمان ہوتے تھے۔ یہاں ایک فوٹو گرافر کی دکان تھی، جس میں ایک رات اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ جب ہم اسکول جا رہے ہوتے، تو نشتر روڈ پر واقع، مُراد ہوٹل میں گرامو فون پر قوالی چل رہی ہوتی۔ میر چاکر روڈ سے لیاقت بازار میں داخل ہوں، تو بائیں جانب طوطی خان مَری کی دو منزلہ دکان تھی، جس کی بالائی منزل پر ملکہ وکٹوریہ کی شبیہہ والے جنگلے لگے ہوئے تھے۔

لیاقت بازار کے وسط میں ایک چکّی تھی، جس کی بالائی منزل پر سِکھ بابا گرونانک کی ریلنگ لگی ہوئی تھی۔ پرانے زنانہ اسپتال میں کوئٹہ وکٹوریہ ہائوس بھی ہوا کرتا تھا۔سبّی کا لیاقت بازار، جناح روڈ ، نشتر روڈ، جوہر روڈ، گنپت رائے روڈ کی عمارتیں، ریلوے کالونی، سرکاری دفاتر اور ریلوے اسٹیشن انگریز طرزِ تعمیر کا نمونہ ہیں۔ دکانیں کشادہ ہوتی تھیں اور سبّی کی قیامت خیر گرمی سے بچنے کے لیے اُن کے سامنے برآمدے ہوتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی ایک دکان سے باہر نکل کر سڑک پار کرکے دوسری دکان تک جائے، تو اِتنی دیر میں بھی اُسے سن اسٹروک ہوسکتا ہے۔

اب لوگوں نے دکانیں آگے بڑھا کر بازاروں کی کشادگی ختم کردی۔ لیاقت بازار کی دُکانوں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ دکانوں کے ساتھ ایک کمرا اسٹور روم یا گودام کے طور پر ہوتا اور پیچھے دکان کے مالک کا گھر ہوتا، جہاں سے وہ ایک دروازے کے ذریعے گھر اور دُکان میں آتا، جاتا رہتا، جب کہ دوسری سمت گلی میں مکان کا عام داخلی دروازہ ہوتا۔ مگر اب یہ مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں سے ہندوئوں کے جانے پر مکان کسی کے قبضے میں چلا گیا، تو دکان کسی اور کے پاس چلی گئی۔یوں یہ منفرد طرزِ تعمیر قصّۂ پارینہ بن گیا۔ ایک مہذّب معاشرے کے طور پر ضرورت اِس امر کی ہے کہ سبّی کی تاریخی عمارتوں کو قومی اور شہری وَرثہ قرار دیتے ہوئے محفوظ کیا جائے۔

ان میں ڈاک خانے کی عمارت، جرگہ ہال، بارنس اسکول، چاکر روڈ، سبزی مارکیٹ، گوشت مارکیٹ، پرانا ای اے سی آفس، کمشنر ہائوس، ڈی سی ہائوس اور اقبال روڈ پر واقع محکمۂ زراعت کی دو منزلہ عمارت شامل ہیں۔ہرنائی پھاٹک سے ذرا آگے پولیس لائن کی کالونی ہے۔ سیلابی پانی سے بچائو کے لیے اِس کے اردگرد پکی اینٹوں سے تقریباً تین، چار فِٹ بلند حفاظتی دیوار بنائی گئی تھی۔ ان کوارٹرز کی چھت پر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی تھیں، کیوں کہ اُس زمانے میں بجلی تو تھی نہیں، تو لوگ رات کو چھتوں پر چار پائیاں ڈال کر سوتے۔ تاریخی اہمیت کے حامل اِن کوارٹرز کی حفاظت بھی ضروری ہے۔گورنر ہائوس کو کسی زمانے میں لاٹ صاحب کا بنگلہ کہا جاتا تھا، پھر یہ ریزیڈنسی بنا اور آج کل اِسے گورنر ہاؤس کہا جاتا ہے۔ اس کی عمارت بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔سبّی کے بازار کو بے رحم کمرشل ازم اور بے ہنگم تعمیرات نے بد صورت بنا دیا ہے۔

یہاں ہر سال سیوی (سبّی) جلسے کے دَوران انگریز حکومت کا جرگہ ہوتا تھا،جس کے لیے کوئین وکٹوریہ جرگہ ہال میں دربار لگتا، اے جی جی جرگے کا افتتاح کرتے، پھر پولیٹیکل ایجنٹ کی صدارت میں باقاعدہ جرگے کی کارروائی ہوتی۔بڑے بڑے نواب اور سردار اِس جرگے کے رُکن ہوتے۔اِس جرگے میں قبائلی اور سیاسی تنازعات کا فیصلہ کیا جاتا۔تمام جرگہ شاہی ارکان کو انگریز سرکار نے رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے ایکڑوں کے حساب سے زمین دی تھی۔

خان آف قلّات اور سردار بلخ شیر مزاری سمیت باروزئی، مَری، بگٹی، کرد، مگسی، رئیسانی، جمالی، بنگلزئی، کاسی نواب، سردار رند، ڈومکی اور گولہ سرداروں کی وسیع رہائش گاہیں اب بھی سبّی میں موجود ہیں۔کوئین وکٹوریہ ہال کا جرگے کے لیے باقاعدہ طور پر افتتاح 1903ء میں کیا گیا تھا۔جب انگریز سرکار نے جیکب آباد سے سبّی تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا، تو یہ 100میل لمبی ریلوے لائن ایک سو ایک دن میں سبّی تک پہنچی۔انگریزوں نے سبّی میں ریلوے اسٹیشن، بازار، دفاتر، سڑکیں، خزانہ آفس، تحصیل آفس، گورنر ہاؤس، ڈی سی آفس اور دیگر عمارتیں تعمیر کیں۔

جب اُنھوں نے اِس شہر کو ڈیزائن کیا، تو اِس کا نام ’’سنڈیمن آباد‘‘ رکھا، مگر سنڈیمن آباد کا نام سیوی کے مقابلے میں نہ چل سکا کہ عوام نے اپنے شہر کو’’ سیوی‘‘ کے نام سے آج تک تاریخ میں محفوظ کر رکھا ہے۔ میر چاکر رند کے بھانجے، میر بیورغ رند نے اُس زمانے کے بارے میں ایک خُوب صُورت شعر کہا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’ آئو چلیں، وہاں جو بلوچوں کا وطن ہے …سیوی، جو دِلوں کو لبھانے والا ہے۔‘‘بلوچی کے عظیم غزل گو شاعر، جام درک نے بھی سیوی سے متعلق شاعری کی ہے۔