تیسری جماعت سے نعتیں پڑھنا شروع کیں، میٹرک میں پہلی نعت لکھی

May 28, 2023

بات چیت: رؤف ظفر،لاہور

بین الاقوامی شہرت یافتہ خطّاط، نعت گو شاعر، نعت خواں، دینی پروگرامز کے میزبان اور موٹیویشنل اسپیکر، نور محمّد جرال کی خدمات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے رمضان المبارک میں سرکاری ٹی وی چینل پر ایک دینی پروگرام کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں۔

دنیا کے پانچ ممالک میں اُن کی خطّاطی کی نمائشیں ہو چُکی ہیں۔ 2021ء میں اِنھیں صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔نور محمّد جرال گزشتہ دنوں امریکا سے پاکستان تشریف لائے، تو اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنی ابتدائی زندگی، خاندان، تعلیم وتربیت وغیرہ سے متعلق کچھ بتایئے؟

ج: میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ ہمارے خاندان میں دُور دُور تک کوئی خطّاط یا نعت گو نہیں۔ یہ صلاحیت خدا داد ہی ہوتی ہے کہ جس پر نظرِ کرم ہو جائے۔ میٹرک تک تعلیم گوجرانوالہ ہی سے حاصل کی۔ میرے آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ ہمارے زمانے میں اساتذہ خوش خطی پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ میرے استاد، میاں محمّد اسلم نے جب میری لکھائی( خط)دیکھی، تو بہت خوش ہوئے اور کہا’’قدرت نے تمہارے ہاتھ میں یہ ہنر دیا ہے، اِس پر بھرپور توجّہ دو۔‘‘ اس کے بعد اُنہوں نے مجھ پر بہت توجّہ دی، جس سے میری لکھائی میں نکھار پیدا ہوا اور پھر میٹرک تک میری خطّاطی میں خاصی پختگی آ چُکی تھی۔میری لکھی قرآنی آیات اور خُوب صورتی سے لکھے گئے اسمائے حُسنہ لوگوں کی توجّہ کا مرکز بننے لگے۔

خطّاطی کا یہ وہ پودا تھا، جو بعد مَیں میری اَن تھک محنت سے ایک شجر بن گیا۔ اِسی طرح مَیں نے تیسری جماعت سے نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں،جس کی ابتدا محلّے کی مسجد سے ہوئی، جہاں میرے بڑے بھائی، ڈاکٹر طارق (مرحوم) مجھے نمازِ جمعہ کے لیے لے جاتے تھے۔ اُسی زمانے میں ریڈیو پاکستان پر بھی بچّوں کے ایک پروگرام میں نعت پڑھی۔ درحقیقت، نعت گوئی میں میرا استاد ریڈیو پاکستان ہے، جہاں سے نشر ہونے والے نعتیہ پروگرام مَیں باقاعدگی سے سُنا کرتا تھا۔ بعد ازاں، ریڈیو کے نعتیہ پروگرامز میں شرکت کا موقع ملا۔ نعت خوانی کے بعد دوسرا مرحلہ نعت گوئی تھا۔ مَیں میٹرک میں تھا، جب پہلی نعت لکھی، جو بچّوں کے رسالے’’ تعلیم و تربیت‘‘ میں شائع ہوئی، اس سے میرے حوصلے بلند ہوگئے۔

مَیں سکینڈ ایئر کا طالبِ علم تھا، جب 1978ء میں صدر ضیاء الحق کے دَور میں کُل پاکستان مقابلۂ نعت خوانی منعقد ہوا، جسے پاکستان ٹیلی ویژن کے5 اسٹیشنز نے نشر کیا۔ اِس مقابلے میں، مَیں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کراچی کے خورشید احمد(مرحوم) کی دوسری پوزیشن تھی۔ اس کے بعد مجھ پر ٹیلی ویژن کے دروازے کُھل گئے۔ نعت خوانی میں محمّد علی ظہوری اور اعظم چشتی میرے استاد تھے۔ ایف اے کے بعد کالج آف فائن آرٹس،لاہور میں داخلہ لیا۔ بعدازاں، 1980ء میں سعودی عرب جانے کا موقع ملا، جہاں ایک ایڈور ٹائزنگ کمپنی سے وابستہ رہا۔

وہاں خطّاطی اور گرافک ڈیزائننگ کے جوہر مزید کُھلے۔اِسی قیام کے دَوران عربی زبان بھی سیکھ لی۔ پھر مَیں نے وہاں اپنی ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی بنا لی۔ اس میں شک نہیں کہ سعودی عرب میں دن رات کی محنت نے میرے فنِ خطّاطی میں نکھار پیدا کردیا، لیکن لاہور میں1976 ء سے 1980 ء تک حافظ محمّد یوسف سدیدی اور محمّد حسین شاہ جیسے نام وَر خطّاطوں کی قربت بھی میرے فن میں نکھار کا باعث بنی۔ ادیبوں، دانش وَروں اور شعراء کی محافل سے بھی خُوب استفادہ کیا۔ 2000ء میں سعودی عرب سے پاکستان واپس آگیا، کیوں کہ یہاں بچّوں کی مزید تعلیم کے لیے میری موجودگی ضروری تھی،لیکن یہاں صرف ایک برس رہا اور 2001ء میں امریکا چلا گیا کہ میرا وِزٹ ویزا تو پہلے ہی لگا ہوا تھا۔ حفیظ تائب نے مجھے امریکا جانے کا مشورہ دیا تھا اور قدرت کو میرا وہاں مستقل رہنا منظور تھا۔سو، مجھے ڈیڑھ سال میں گرین کارڈ مل گیا، جس کے بعد مَیں نے ایک ایڈور ٹائزنگ کمپنی قائم کرلی اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: عرفان نجمی)

س: اِس دَوران خطّاطی، نعت گوئی اور نعت خوانی کا سلسلہ بھی جاری رہا؟

ج: جی بالکل۔ خطّاطی، نعت گوئی اور نعت خوانی تو میرا اوڑھنا بچھونا تھے اور اب بھی ہیں۔ سعودی عرب میں اُس وقت کچھ ایسا ماحول تھا کہ ملازمت سے ہٹ کر دوسری سرگرمیاں جاری رکھنی مشکل تھیں، لیکن اس سے پہلے لاہور اور پھر امریکا میں ان دونوں شعبوں میں مجھے کام کا خُوب موقع ملا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو، جب مَیں نے قرآنی آیات، اسمائے حُسنہ اور فارسی اشعار کو اپنے قلم کی نوک سے کینوس پر خُوب صُورت رنگوں کے جُھرمٹ میں نہ سجایا ہو یا نعت خوانی، نعت گوئی کی سعادت حاصل نہ کی ہو۔

میرے فن پاروں کی امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں نمائشیں ہو چُکی ہیں اور یہ سولو نمائشیں تھیں،جب کہ مشترکہ نمائشوں کی تعداد تو بے شمار ہے۔ مجھے8 گولڈ میڈلز مل چُکے ہیں، جب کہ 2021ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے خطّاطی اور نعت خوانی میں پرائڈ آف پرفارمینس مِلا۔ خطّاطی میرا جنون ہے اور اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ مَیں ہر سال رمضان المبارک میں پی ٹی وی کے پروگرام ’’حرف و حکمت‘‘ میں روزانہ اسمائے حسنہ کے حوالے سے خطّاطی کا ایک تازہ نمونہ تخلیق کرتا ہوں۔ یہ پروگرام 7،8 سال سے جاری ہے اور اس کے لیے مَیں امریکا سے اپنے خرچ پر آتا ہوں۔ جہاں تک نعت گوئی کا تعلق ہے، مجھے12 ربیع الاوّل کے موقعے پر ہونے والی سالانہ نعت کانفرنس کی افتتاحی تقریب اور14 اگست کی تقریب میں نعت پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

ان دونوں تقاریب میں صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم پاکستان مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ 8, 7 سال سے جاری ہے۔ مَیں امریکا میں ویسٹ ورجینیا میں رہتا ہوں اور گھر کا تہہ خانہ میری خطّاطی کا مرکز ہے۔ اپنے فن پارے امریکا کے مختلف اسلامک سینٹرز کو بھی بھیجتا ہوں۔ میرا آئوٹ ڈور ایڈور ٹائزنگ کا کام بیٹے نے سنبھال لیا ہے، اِس لیے اب روزی روٹی کی مشقّت سے بے نیاز ہو کر خود کو اِس نیک کام کے لیے وقف کردیا ہے۔ امریکا میں بیش تر اسلامک سینٹرز سے میرا رابطہ رہتا ہے، جہاں خطّاطی کی خصوصی کلاسز ہوتی ہیں، مَیں اِس ضمن میں بچّوں کی رہنمائی کرتا ہوں۔

س: امریکا اور دوسرے ممالک میں، جہاں لوگ عربی سے نابلد ہیں اور بچّے بھی صرف انگریزی جانتے ہیں، خطّاطی کِن بنیادوں پر مقبول ہو رہی ہے؟

ج: قرآنی حروف یا اسمائے حسنہ میں ایک عجیب کشش اور خُوب صُورتی پائی جاتی ہے، جو نہ صرف آنکھوں کو بَھلی لگتی ہے، بلکہ دل کی گہرائیوں میں بھی اُتر جاتی ہے۔ حروف کا زیروبم، اُن کے خصوصی زاویے، ڈیزائن اور پس منظر میں پُرکشش رنگوں کی بہار، ہر شخص کو اپنی جانب متوجّہ کرتی ہے اور جب لوگوں کو ترجمے کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ اِن حروف میں دین اور دنیا کا کون سا فلسفہ پوشیدہ ہے، تو یہ فن پارہ اُن کے لیے دل کشی کے ساتھ علم و حکمت کا بھی سرچشمہ بن جاتا ہے۔ گو کہ بہت سے مسلمانوں کے بچّے صرف انگریزی جانتے ہیں، لیکن خطّاطی کی کلاسز میں اُن کی دل چسپی دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے۔

اُنھیں اسمائے حسنہ اور آیاتِ قرآنی کا مطلب بھی سمجھایا جاتا ہے۔ بچّوں اور بڑوں کے لیے درسِ قرآن کے ساتھ خطّاطی کی تعلیم و تربیت بہت مفید ثابت ہو رہی ہے۔جہاں تک عام امریکیوں کا تعلق ہے، وہ ہاتھ سے بنائے گئے کسی بھی فن پارے کو آنکھوں سے لگانے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور اسلامی فنونِ لطیفہ تو اُن کے لیے بہت ہی دل چسپی کا باعث ہیں۔ ایک بیڈ فورڈ ٹرک پر دو نیم خواندہ پاکستانی پینٹرز کی نقّاشی امریکیوں کو اِس قدر پسند آئی کہ اُنہوں نے ایک ٹرک کو، جس کے آدھے حصّے پر نقّاشی ہو چُکی تھی، ایک بحری جہاز پر واشنگٹن لانے کا اہتمام کیا، جہاں ان پینٹرز نے باقی حصّے کو نقش و نگار سے مزیّن کیا۔

بعد میں ان پینٹرز کو امریکی شہریت بھی دے دی گئی۔ اِسی طرح ایک پاکستانی نے نیویارک میں ڈھول پیٹنے کا مظاہرہ کیا، جس کا انداز امریکیوں کے ڈرم سے مختلف تھا۔ اُسے بھی امریکی امیگریشن مل گئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اکثر امریکی کسی بھی ثقافتی، روایتی فن کو، چاہے اُس کا تعلق کسی بھی مُلک و قوم سے ہو، بہت پسند کرتے ہیں۔ اسلامی خطّاطی تو اُنہیں فکری و بصری امتزاج کی وجہ سے زیادہ متوجّہ کرتی ہے،حتیٰ کہ اسلام قبول کرنے والے بعض امریکیوں نے خطّاطی میں بھی نام پیدا کیا۔ ان میں محمّد زکریا بہت معروف ہیں، جنھوں نے35 سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔

اُنہوں نے خاص طور پر تُرکی جا کر اسلامک آرٹ سیکھا۔ پھر اُن سے بہت سے افراد نے یہ ہنر سیکھا۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں تُرکی، مِصر، سوڈان، ایران اور شام کے خطّاط اِس فن کے فروغ میں مصروف ہیں اور اب تو جدید ریسرچ نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ خطّاطی ارتکازِ توجّہ، کردار سازی، صبر و قناعت، خُوب سے خُوب تر کی تلاش، مظاہرِ فطرت سے ہم آہنگی، طمانیتِ قلب، اعصابی سکون، ہاتھ کے پٹّھوں کی ورزش اور اللہ سے تعلق کا بہترین وسیلہ ہے۔

س: امریکا میں فروغِ اسلام کی کیا صُورتِ حال ہے۔ کیا یہ بات درست ہے کہ اسلام مستقبل قریب میں امریکا کا ایک بڑا مذہب بننے جا رہا ہے؟

ج: بلاشبہ، امریکا میں اسلام دوسرے مذاہب کے مقابلے میں انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے، لیکن اِس ضمن میں بہت زیادہ خوش فہمی اور مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ امریکا میں فروغِ اسلام کی10 فی صد وجہ مسلمانوں کا حُسنِ سلوک ہے جب کہ باقی90 فی صد لوگوں کی اسلامی تعلیمات جاننے کی خواہش اور تحقیق ہے۔ اسلام اِس وقت امریکا میں عیسائیت اور یہودیت کے بعد تیسرا بڑا مذہب ہے۔ 2018ء کے ایک سروے کے مطابق امریکا میں تقریباً 40 لاکھ سے زائد مسلمان رہائش پزیر ہیں۔ اسلام، امریکا کے علاوہ یورپ، افریقا اور دوسرے خطّوں میں بھی پھیل رہا ہے اور اندازہ ہے کہ دنیا میں ہر چار میں سے ایک شخص مسلمان ہے اور اِس اعتبار سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک اسٹڈی کے مطابق امریکا میں ہر سال30 ہزار افراد حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں اور امریکا میں25 فی صد مسلمان ایسے ہیں، جو پہلے غیر مسلم تھے۔ اصل میں ابلاغ کے تیز ترین ذرائع نے اسلامی تعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دی ہیں اور پھر قرآنِ حکیم نے1400 سال قبل جن سائنسی حقائق اور نشانیوں کا ذکر کیا تھا، آج وہ جدید سائنس کی کسوٹی پر پوری اتر رہی ہیں۔

کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب اسلام کی حقانیت آشکار نہ ہوتی ہو، لیکن مَیں پھر کہوں گا کہ یہ مسلمانوں کے کردار سے زیادہ، غیر مسلموں کی اپنی ریسرچ اور بین المذاہب تقابل ہے، جو اُنہیں اسلام کی طرف مائل کررہا ہے۔ اگر مسلمان اپنے طرزِ عمل اور فکر کو بہتر اور مثبت کر لیں، توفروغِ اسلام کا یہ عمل مزید تیز ہو سکتا ہے۔ بس، مسلمانوں کو خود کو عہدِ جدید کی ریسرچ اور سوچ بچار سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

س: مسلمانوں سے دہشت گردی کا لیبل تو کافی حد تک اُتر چُکا ہے؟

ج:جی، اب نائن الیون والی صُورتِ حال نہیں ہے۔ ویسے نائن الیون کے بعد قرآنِ حکیم کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ اُس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد مشہور کردیا گیا تھا۔ لوگ قرآنِ حکیم کے مطالعے سے جاننا چاہتے تھے کہ کیا واقعی یہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے، لیکن جب اُن پر حقیقت آشکار ہوئی، تو اُن کا طرزِ فکر بدل گیا۔ اِس وقت اسلام کے سب سے بڑے مبلّغ نو مسلم ہیں، جو دنیا بھر میں اس کی سچّائی اور حقّانیت کا پرچار کر رہے ہیں۔

اسلام کے پھیلنے کی ایک وجہ مغرب میں صوفی ازم کا بڑھتا رجحان بھی ہے۔ صوفی ہمیشہ امن کا پرچار کرتے ہیں۔ وہاں پاکستان کے صوفیائے کرام کا کلام، جو کہ امن اور محبّت کا درس دیتا ہے، بہت مقبول ہورہا ہے۔ ہمارے بعض علماء اسلام کے سزا کے پہلوئوں کوزیادہ اجاگر کرتے ہیں، اُنہیں رحمٰن اور رحیم کے پہلوئوں کو بھی نمایاں کرنا چاہیے تاکہ لوگ، خاص طور پر بچّے، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے ربّ العزّت کو اپنا دوست سمجھیں۔

س: پاکستان میں اِن دنوں ہونے والی نعت خوانی سے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

ج: یوں تو ہر نعت خواں حضورﷺ سے بے پناہ عقیدت و محبّت کے جذبے ہی سے سرشار ہوتا ہے، لیکن جو نئے رجحانات سامنے آئے ہیں، اُن سے نعت خوانی کا تقدّس مجروح ہو رہا ہے، جیسے گانوں کی دھنوں پر نعتیہ کلام پڑھنا، میوزک، نعت خوانی کا بھاری معاوضہ لینا اور شوخ، بھڑکیلے ملبوسات کا استعمال۔ نعت خوانوں کے جذبے پر تو شک نہیں، لیکن اس کی پریزینٹیشن کا بھی دھیان رکھنا چاہیے۔

س: آپ موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں؟

ج: مَیں لمبے چوڑے لیکچرز پر یقین نہیں رکھتا،بس ایک بلاگ تشکیل دیا ہے، جس کے تحت صرف 5 منٹ کی تقریر میں مولانا رومیؒ اور شیخ سعدیؒ کی حکایات کے پس منظر میں عہدِ حاضر کے مسائل پر گفتگو کرتا ہوں۔ الحمدللہ، میرے لاکھوں فالورز ہیں۔ مغربی ممالک کے لوگ سکون کی تلاش میں ہیں اور اسلامی تعلیمات، سیرتِ رسولؐ، مسلم روایات اور مسلمان زعما کے اقوال اُن کے زخموں کو مندمل کرنے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔

س: مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟

ج: اسلام آباد میں ایک ایسی اکیڈمی قائم کرنا چاہتا ہوں، جہاں اسلامی فنونِ لطیفہ اور دینی تہذیب و ثقافت سے وابستہ تمام علوم و فنون، جیسے نعت خوانی، قرات، خطّاطی وغیرہ کی عملی تربیت دی جائے اور جو تمام اسلامی ممالک کے فنونِ لطیفہ کی وزارتوں سے مربوط ہو اور ہم نے ایک چار منزلہ عمارت کا ایک فلور اِس مقصد کے لیے مختص کردیا ہے۔

نور محمّد جرال کا نعتیہ کلام

ریاضِ حرفِ عقیدت کی ہے بہار درود

نگار خانۂ مدحت کا شاہ کار درود

ہر ایک حرفِ سخن کا وجود خوش بُو ہے

عروسِ گُلشنِ مدحت کا ہے نکھار درود

میں لمحہ لمحہ گُزاروں ثنا کی وادی میں

ہر ایک سانس کے لب پر ہو بار بار درود

بس ایک مَیں ہی نہیں بے شمار مجھ سوں کا

بروزِ حشر ہے بخشش کا انحصار درود

رہِ حیات کی آزردگی میں دیکھا ہے

ہمیشہ دیتا ہے دل کو مِرے قرار درود

حصارِ نعت میں گزری ہے زندگی میری

خوشا کہ ہو مِرے مرقد میں مُشکبار درود

ماں کی یہ عُمدہ نصیحت ہےعُمر بھر کے لیے

ہر ایک کام میں رکھنا شریکِ کار درود

یہ التجائے شبی ہو قبول اے مولا

بوقتِ نزع ہو سانسوں پہ آشکار درود

مجھے بھی رکھتا ہے اہلِ سخن کےحلقے میں

مری صدا کو بھی دیتا ہے اعتبار درُود

رکھا ہے میرا بھرم نُور میرے آقاؐ نے

مجھے حیات میں رکھتا ہے بُردبار درود