طفلانِ انقلاب کے مغالطے اور مبالغے

June 01, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ)

سید مہد ی علی المعروف نواب محسن الملک نے 1906ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کے نواسے کے ساتھ حکومت پاکستان نے کیا سلوک کیا؟نواب محسن الملک کی صاحبزادی زہرہ جن کی شادی سید علمبردار سے ہوئی ،انکے فرزند حسن ناصر کارل مارکس سے متاثر ہوئے تو کیمونزم کی راہ اختیار کرلی۔قیام پاکستان کے بعد کیمونسٹ پارٹی کی قیادت راولپنڈی سازش کیس کی وجہ سے زیر عتاب آگئی تو تنظیمی معاملات حسن ناصر نے سنبھال لئے۔1954ء میں ملک بدرکردیا گیا مگر ملک بدری کی مدت ختم ہوتے ہی پاکستان واپس آگئے۔ایوب خان کے دور میں انہیں گرفتار کرکے لاہور کے شاہی قلعے لایا گیا۔اس عقوبت خانے میں حسن ناصر کے ساتھ کیا ہوا؟کسی کوکچھ معلوم نہیں۔حکام کی من گھڑت کہانی تو یہ تھی کہ اس نے خود کشی کرلی لیکن آج تک اس کی لاش نہیں مل پائی ۔جنرل ضیاالحق کے زمانے میں لاہور کے بدنام زمانہ عقوبت خانے شاہی قلعہ میں ظلم و ستم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔صرف مارچ کے مہینے میں پیپلز پارٹی کے 6ہزار کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ 3فٹ قد کے ایک سیاسی کارکن قاضی سلطان محمود کو بھی دھرلیا گیا۔فوجی عدالت سے تین سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔قلعہ لاہور میں تو تشدد کی انتہا ہوگئی۔مگر اس پستہ قد قاضی سلطان محمود نے ایسی بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا جو بڑی قدآور شخصیات کے ہاں دکھائی نہیں دیتی۔چمڑے کے چابک سے جلد ادھیڑ دیناتو بہت معمولی بات ہے ،ہتھکڑی قاضی سلطان محمودکی کمزور کلائی کے مقابلے میں بہت بڑی تھی ،جب اسے عدالت میں پیش کرنے کیلئےلایا گیا تو ہتھکڑی اس کے گلے میں ڈال دی گئی ۔بینظیر بھٹو کی تصنیف ’’دختر مشرق‘‘میں بیگم بھٹی کا ذکر ہے جسے خفیہ ایجنسی کے میجرجنرل قیوم جلتے ہوئے سگریٹ سے داغا کرتے تھے۔ایک اور سیاسی کارکن ناصرہ جنہوں نے مسلسل 5ہفتے یہ صعوبتیں برداشت کیں،انہیں بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے اور کہا جاتا کہ تم نے پیپلز پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان نہ کیا تو تمہارے والد ،والدہ اور بیٹی کو یہاں لاکر یہی سلوک کیا جائے گا۔فرخندہ بخاری نے اپنی خودنوشت ’’یہ بازی عشق کی بازی ہے‘‘میں بتایا ہے کہ کس طرح اس کی کلائیوں کو سگریٹ سے داغا جاتا تھا۔فخرالنسا کھوکھر ایڈوکیٹ اپنی سوانح حیات ’’وکالت ،عدالت اور ایوان تک‘‘میں لکھتی ہیں کہ انہیں جیل میں 10+10کے جس سیل میں رکھا گیا تھا ،اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں رکھے جانے والے قیدی خود کشی کرلیتے ہیں یا پھر ان کا نروس بریک ڈائون ہوجاتا ہے۔پیپلز پارٹی کے کارکن آغا نوید کی کتاب ’’دوسرا جنم ‘‘پڑھیں تاکہ آپ کو معلوم ہو سیاسی کارکنوں نے اپنے نظریات اور وابستگی کی کیا قیمت چکائی ۔صفحہ نمبر 211پر مظالم کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’رانوں پر رولر پھیرنا ،یہ تشدد کی ایک ایسی واردات ہے جس میں آدمی کو چاروں شانے زمین پہ لٹا کر چار آدمی اسے انتہائی مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں پھر اس کی ٹانگوں کے اوپر لوہے کا ایک رولر رکھ کر اس پر ایک یا دو آدمی چڑھا دیئے جاتے ہیں۔کچھ انتہائی اخلاق باختہ قسم کے تشدد بھی یہاں کئے جاتے تھے جن میں جسم کے مخصوص حصے میں مرچیں ڈالنا ،اس کے منہ اور ناک میں مرچیں ڈالنا۔ اور قبیح فعل بھی یہاں کئے جاتے تھے۔‘‘

جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔آصف زرداری نے بینظیر بھٹو سے شادی کی تو زندگی کے نہایت قیمتی 14سال جیل میں گزارنا پڑے۔جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا تو ریاستی ظلم و جبر کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ابتلا و آزمائش اور مصائب و آلام کا مقابلہ کس شان سے کیا جاتا ہے ،یہ پرویز رشید سے پوچھیں۔ میں ایک واقعہ جو پہلے کئی بار سامنے آچکا ہے بس اس کےذکر پر اکتفا کروں گا۔جب ان کی بیٹی ملنے آئی تو پرویز رشید کی شلوار خون آلود تھی ،باپ اور بیٹی نظریں ملانے سے قاصر تھے ۔بدترین تشدد کے اثرات سے نکلنے کیلئے انہیں طویل عرصہ نفسیاتی علاج کروانا پڑا۔سیاسی نظریات کا خراج کیسے ادا کیا جاتا ہے جاوید ہاشمی سےپوچھیں۔2003سے 2007ء تک چار سال انہوں نے بغاوت کے الزام میں قید تنہائی کاٹی۔ نوازشریف ،مریم نواز،شہباز شریف ،حمزہ شہباز،شاہد خاقان عباسی ،خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف،رانا ثنااللہ ،احسن اقبال ،راجہ قمر الاسلام ،مفتاح اسماعیل ،جاوید لطیف ،فریال تالپور ،خورشید شاہ ،مفتی کفایت اللہ اور دیگر سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں نے تحریک انصاف کے دور ِحکومت میں کتنا عرصہ جیل میں گزارا ؟ان میں سے کتنے قیدی حاکم وقت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوئے؟ احد چیمہ اور فواد حسن فواد تو سیاسی کارکن بھی نہیں تھے مگر وہ وعدہ معاف گواہ بننے پر تیار نہ ہوئے ۔آپ کو تو ایسی عدلیہ میسر آئی ہے جو منصف ہی نہیں خود مدعی اور وکیل کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیتی ہے مگر اس دور میں کئی کئی ماہ کیس نہیں لگتے تھے ،بینچ ٹوٹ جایا کرتے تھے یاد ہے ناں ؟

بچے ہمیشہ بچے نہیں رہتے۔ امید ہے طفلان انقلاب بھی بڑے ہو جائیں گے، ان کا سیاسی شعور اور تاریخ محدود نہیں رہے گی اور وہ ان مغالطوں اور مبالغوں سے نکل آئیں گے کہ جو ہم پہ بیت رہی ہے وہ پہلے کبھی کسی پہ نہیں گزری۔