موم کے پروں والے سورج سے دور رہیں

June 08, 2023

یونانی دیو مالا کا ایک کردار ڈی ڈلس حیرت انگیزصناع تھا، بنیادی طور پر وہ مجسمہ ساز تھا ، اور مجسمے ایسے بناتا کہ حقیقی انسانوں کا گمان گزرتا، سقراط کے بہ قول ڈی ڈلس کے مجسموں کورسی سے باندھانا پڑتا تھا کہ مبادا وہ خرامِ ناز کرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو جائیں ۔ وہ نئی نئی چیزیں ایجاد کرتاجنہیں دیکھنے والے مبہوت رہ جاتے۔ ایک دفعہ کسی جُرم کی پاداش میں ڈی ڈلس اور اُس کے فرزند اِکرس کو بادشاہِ وقت نے زندان میں قید کر دیا ۔ ڈی ڈلس فرار کے منصوبے سوچنے لگا، آخر اُس نے پرندوں کے چھوٹے بڑے پروں کو موم سے جوڑ کر ایسے پر بنا لئے جن کی مدد سے اُڑا جا سکتا تھا۔فرار سے پہلے اُس نے اپنے بیٹے اِکرس کو نصیحت کی کہ ان پروں کے دوش پر وہ تا دیر محوِ پرواز رہ سکتا ہے مگر بس ایک دھیان رہے کہ سورج کے نزدیک نہ جائے، ورنہ موم پگھل جائے گی، پر اُتر جائیں گے، اور وہ زمین پر گر جائے گا۔ڈی ڈلس اور اِکرس زندان سے فضا کے رستے فرار ہوئے اور پرندوں کی طرح اُڑتے ہوئے دور نکل آئے۔ دونوں اپنی رہائی پر بہت خوش تھے۔کچھ ہی دیر میں اِکرس کے دِل میں خدائوں کے قریب جانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی، اور یک بارگی اُس نے بلند ہونا شروع کر دیا۔اِکرس کا باپ اسے پکارتا ہی رہ گیا مگر اِکرس نے اُس کی ایک نہ سُنی اور آسمانوں کی طرف اُڑتا چلا گیا، اُڑتا چلا گیا، حتیٰ کہ سورج کے قریب جا پہنچا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اِکرس نے بہت پر مارے لیکن وہ اُڑ نہیں پا رہا تھا، اُس نے اپنے پروں کی جانب دیکھا، پر پگھل چکے تھے، اِکرس کو فقط اپنے ہلتے ہوئے بازو نظر آئے، پھر اِکرس گرنے لگا، فضائوں کو چیرتا ہوا اِکرس گرتا چلا گیا، اور آخرِ کار سمندر میں گِر کر ڈوب مرا۔حال ہی میںاس دیومالائی داستان پر مبنی ایک فلم ہم اپنے سیاسی تھیٹر میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ ایک یونانی شہزادہ اپنی ذات کے زندان میں قیدتنہائی کاٹ رہا تھا، ایسے میں الوہی صناعوں کے ایک بے بدل گروہ نے اعلان کیا کہ آج سے ہم تمہارے باپ ڈی ڈلس کی طرح ہیں، اور ہم تمہارےلئے موم کے ایسے پر بنائیں گے جنہیں لگا کر تم آسمانِ سیاست پر محوِ پرواز ہو جائو گے، تمہارے سب حریف پیچھے رہ جائیں گے، نیچے رہ جائیں گے۔اور پھر اِکرس خان کو نصیحت کی گئی کہ بس ایک خیال رکھنا کہ ہماری ہم سری کی خواہش میں آسمانوں کی سمت اُڑان مت بھرنا کیوں کہ ہم نے راہ میں سورج نصب کر رکھا ہے جس سے تمہارے مومی پر پگھل جائیں گے۔اور پھر ہم نے دیکھا کہ اِکرس خان نے ہو بہو وہی دیو مالائی غلطی کی اور مرغِ بے بال کی طرح تڑپتا، پھڑکتا ہوا گرتا چلا گیا حتیٰ کہ بحر ِ ظلمت میں غرقاب ہو گیا۔ سچ ہے کہ ہمارے ہاں پرندہ سازی کی یہ صنعت ہمیشہ سے مستحکم رہی ہے، مصنوعی بال و پر موم سے جوڑ کر ہمارے کاری گر اقبال کے جعلی شاہین بناتے رہے ہیں، کبھی ایم کیو ایم، کبھی ٹی ٹی پی، کبھی کوئی سپاہ، کبھی کوئی لشکر۔سب کے سب سورج کے اتنے نزدیک چلے گئے کہ ان کے مومی پر پگھل گئے اور وہ ہوا میں لوٹنیاں کھاتے سمندروں میں جا گرے۔ یہ سب کاری گری صناعوں کو مہنگی پڑی مگر شوقِ صناعی نے ہار نہ مانی۔ سو اِکرس خان کا تجربہ کیا گیا جو صناعوں کو پچھلے تمام تجربات سے مہنگا پڑا ، اس دفعہ تو جعلی شاہین سورج کے بالکل سامنے آ گیا، یعنی چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو۔ اکرس خان آفتابِ نو مئی تک یو نہی نہیں آپہنچا تھا، اس کے پیچھے ایک طویل پرواز تھی۔ یہ پرواز میر جعفر، میر صادق سے شروع ہو کر جانور اور غدار سے ہوتی ہوئی کور کمانڈر ہائوس پہنچی تھی۔ اپنے حواریوں کے دل میں ادارے کے خلاف غصہ بھرا گیا، نفرت ڈالی گئی۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لئےکسی آڈیو لیک میں ہونے والی منصوبہ بندی کا منظرِ عام پر آنا لازم نہیں ہے، یہ سب تو کھلے عام ہو رہا تھا،ذہن سازی کی جا رہی تھی، ہزاروں حواریوں کو مومی پر لگائے جا رہے تھے، سب کے سب اُڑ رہے تھے، غول در غول، سب کے سب سورج کی سمت محوِ پرواز، حتیٰ کہ نو مئی کا دن آن پہنچا، اور سب کےبال و پر جل کر راکھ ہو گئے، اِکرس قلابازیاں کھاتا ہوا اپنے لشکر سمیت سمندروں میں غرقاب ہو گیا۔

یہ تو طے ہے کہ اس شاہین سازی کے کھیل نے ملک و قوم کے پر کاٹ دیے ہیں، آئین، قانون، انسانی حقوق، سب کے سب، پر کٹے دکھائی دیتے ہیں۔اِکرس خان کو ایسے بڑے بڑے جہازی سائز کے سیاسی و عدالتی پر باندھے گئے کہ آئین اور قانون کے اندر رہ کر اس کوقابو میں لانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا۔ اگر عدالتیں قانون کو موم کی ناک نہ بناتیں، ضمانتوں کی آ ڑھت کا کام نہ شروع کرتیں تو یہ معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو سکتے تھے۔ کیس چلتے اور اپنے منطقی انجام تک پہنچتے، مگر یہ رستہ روک دیا گیا، لہٰذا جب ملٹری کورٹس رو بہ عمل آئیں تب تک رائے عامہ تیار ہو چکی تھی کہ اس کے سوا اب کوئی رستہ نہیں ہے۔ بلا شبہ، انسانی حقوق کی موجودہ ناقابلِ رشک صورتِ احوال کی بنیادی ذمہ داری عدالتوں میں بھنبھناتے ہوئے برادرانِ اِکرس پر عائد ہوتی ہے۔

اِکرس کی کہانی کا ایک ہی سبق ہے، موم کے پروں والے سورج کے نزدیک نہیں جایا کرتے، اسی لئے اِکرس شریف احتیاطً پانچ فٹ سات انچ کی بلندی سے اوپر اُڑنے کا رسک نہیں لیتے۔