مسٹر گاندھی کی دل موہ لینے والی باتیں

June 09, 2023

دینی تحریکوں کے گہرے اثرات اور مسلسل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز ہندوستانیوں کو مرحلہ وار اِختیارات سونپنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور 1919ء میں دوسرا آئینی ایکٹ برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کر لیا تھا۔ اِس ایکٹ کے خلاف مسٹر گاندھی نے ستیہ گری کا راستہ اختیار کیا۔ وہ بڑی چابک دستی سے مسلمانوں میں ایک مقام بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ معروف مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنی کتاب ’جدوجہدِ پاکستان‘ میں اِس ضمن میں بڑے ڈرامائی واقعات بیان کئے ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسٹر گاندھی کی تحریکِ خلافت کی غیرمشروط ہم نوائی کے اصل مقاصد کیا تھے۔’’مارشل لا سے مارشل لا تک‘‘ کے مصنّف جناب میر نور اَحمد کے تجزیے کے مطابق اُس وقت مسلمانوں کی تمام تر توجہ صرف ایک مسئلے پر مرکوز تھی کہ برطانیہ اور دُوسری اتحادی طاقتیں شکست خوردہ ترکی سے کیا سلوک روا رَکھتی ہیں اور کیا جزیرۃ العرب پر خلیفۃ المسلمین کا سیاسی اقتدار قائم رکھنے کا کوئی بندوبست ہو سکے گا۔ وہ برطانوی حکومت پر اپنا اجتماعی نقطۂ نظر پوری توانائی سے واضح کرنے کے لئے سخت بےچَین تھے۔ اُس وقت ہندوؤں کی صفوں میں گاندھی جی کی ایک ایسی شخصیت موجود تھی جو مسلمانوں کے شدید جذبات کا بغور مطالعہ کر رہی تھی۔ اُن کی اُس زمانے کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ اُنہیں نظر آ رہا تھا کہ تاریخ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کر دیا ہے جس سے فائدہ اُٹھا کر ہندوستان کی تاریخ میں ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے مطالبے کی حمایت یہ کہہ کر شروع کی کہ یہ میرے مسلمان بھائیوں پر آزمائش کا وقت ہے اور مَیں تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک جائز مطالبہ ہے، لہٰذا میرا فرض ہے کہ مَیں اِس کا پورا پورا ساتھ دوں۔اِس مطالبے کو منوانے کیلئے علما کے ایک بڑے حلقے نے ’جمعیت علمائے ہند‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کر لی تھی۔ اُس کا ایک اجلاس سر ابراہیم ہارون کی صدارت میں ستمبر 1919ء کے لگ بھگ لکھنؤ میں ہوا جس میں مرکزی خلافت کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُس میں ہر مسلمان حصّہ لیتے ہوئے ملّی تحریک میں عوامی رنگ بھر سکتا تھا۔ اُس وقت مولانا شوکت علی نظربند تھے۔ رہائی کے بعد اُنہوں نے سیکرٹری کا عہدہ سنبھال لیا۔ عملی اقدامات پر غوروخوض کے لئےایک کانفرس دہلی میں منعقد ہوئی۔ مجلسِ استقبالیہ کے صدر جناب آصف علی نے مہاتما گاندھی کو بھی شرکت کی دعوت دی اور اَیجنڈے میں تحفظِ خلافت کے ساتھ ساتھ گئو رکھشا کا مسئلہ بھی شامل کر لیا، لیکن جب کانفرنس کا اجلاس گاندھی جی کی صدارت میں شروع ہوا، تو اُنہوں نے آغاز ہی میں ایجنڈے کا ذکر کرتے ہوئے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا کہ مَیں مسلمانوں کے مطالبے کی غیرمشروط اور مکمل حمایت کرتا ہوں اور اِس کے عوض کسی جوابی رعایت مانگنے کو کم ظرفی سمجھتا ہوں، اِس لئےگئو رکھشا کا مسئلہ ایجنڈے سے حذف کر دیا جائے۔ مہاتما جی کے اِن چند جملوں نے مسلمان لیڈروں کے دل موہلئے۔ اِس کانفرنس میں اُنہوں نے عملی اقدامات کی ذمےداری بھی مسلمانوں ہی کو سونپتے ہوئے کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے، ہم اُسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیںرکھیں گے۔23دسمبر 1919ء کو آئینی اصلاحات پر شاہی دستخط ثبت ہو چکے تھے، مگر خلافت کانفرنس کیلئےنئی آئینی اصلاحات سے تعاون یا عدم تعاون کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اُس کی ساری توجہ خلافت کے بنیادی معاملے پر مرتکز تھی، چنانچہ خلافت کمیٹی نے حکومتِ برطانیہ پر مسلمانوں کا نقطۂ نظر واضح کرنے کیلئے ایک وفد وائسرائے ہند اور ایک وفد لندن برطانوی وزیرِاعظم کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ لندن جانے والے وفد کی قیادت کی ذمےداری مولانا محمد علی جوہرؔ کو سونپی گئی۔ عملی اقدامات پر غور کرنے کے لئے خلافت کمیٹی نے 20 جنوری 1920ء کو ایک اور کانفرنس طلب کی جس میں مہاتما گاندھی بھی مدعو کئےگئے۔ یہاں اُنہوں نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ صاحبان میری بات مانیں، تو ایک خودسر حکومت پر مؤثر اخلاقی دباؤ ڈالنے کا صحیح طریقہ میری سوچ کے مطابق یہ ہے کہ عدم تعاون کی تحریک چلائی جائے۔ اِسی کے ساتھ عدم تعاون کے درج ذیل چار مراحل بھی تجویز کئے گئے:(1) ترک خطابات اور تعلیمی اداروں اور عدالتوں کا مقاطعہ (2) بعد ازاں حکومت کے جملہ محکموں سے استعفے (3) اِس کے بعد پولیس اور فوج سے علیحدگی (4) آخری مرحلے میں ٹیکس دینے سے انکار۔یہ بھی اعلان ہوا کہ اِس پروگرام پر عمل درآمد کے دوران عدم تشدد کے اصول کی پوری پابندی کی جائے گی۔ حاضرین کو یہ انقلابی پروگرام بہت پسند آیا۔14 مئی 1920ء کو جب مولانا محمد علی جوہرؔ لندن ہی میں تھے، اتحادی طاقتوں نے ترکی کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا جو خالص ترکی آبادی والے علاقوں کے حصّے بخرے کر کے دوسرے ملکوں میں بانٹ دینے پر مشتمل تھا۔ اعلان سے پہلے ہی مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار میں تحفظِ خلافت کی خاطر عدم تعاون کےحق میں پروپیگنڈہ شروع کردیااورجگہ جگہ خلافت کانفرنسیں،مقامی طور پر اِس پروگرام کے حق میں قراردادیں منظور کرنے لگیں۔ مسٹر گاندھی کمال چابک دستی سے اِس نکتے پر زور دَیتے رہے کہ عدم تعاون کے پروگرام کا اصل مقصد تحفظِ خلافت ہے اور اَگر اِسکے ذریعے حکومت کی مشینری مفلوج کر دی جائے، تو سوراج کا مسئلہ بھی خودبخود حل ہو جائے گا اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں دلی اتحاد پروان چڑھے گا اور اِس کے بعد گئو رکھشا کا مسئلہ بھی باقی نہیں رہے گا۔ حالات نے آگے چل کر اُن کی نیت کا کھوٹ طشت از بام کر دیا۔ وہ دَراصل مسلمانوں کی عوامی طاقت کے بل بوتے پر اپنا سیاسی قد بڑھانا اور ہندوستان کے بلاشرکت غیرے لیڈر بن جانا چاہتے تھے۔ وہ جنوبی افریقہ سے آئے تھے اور ہندوستان میں ابھی غیرمعروف تھے، چنانچہ برطانوی حکومت اُن کی دھمکیوں کو کچھ بھی وزن نہیں دے رہی تھی۔ مسٹر گاندھی نے عدم تعاون کا جو پروگرام دیا، اُس کی ناکامی اور تباہی قائدِاعظم پر پہلے ہی آشکار تھی۔ (جاری ہے)