سب سے پہلے میں، پھر پاکستان

January 02, 2014

پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ پہلی دفعہ ایک فوجی ڈکٹیٹر پر آئین سے غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ پہلی دفعہ دنیا کو یہ پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان کا آئین و قانون سب شہریوں کےلئے برابر ہے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا خیال تھا کہ پاکستان کا آئین و قانون صرف سویلینز کے لئے ہے۔سزائیں اور پھانسیاںصرف سیاستدانوں کا مقدر ہیں۔ غداری کے الزامات صرف سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پرلگائے جاسکتے ہیں لیکن پہلی دفعہ قائداعظمؒ کا پاکستان جاگ رہا ہے۔ اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کی فوج اور عوام کو آمنے سامنے لانے والے شخص کو آئین کی دفعہ چھ کے تحت غداری کے الزام کا سامنا ہے۔ ابھی تک کئی جغادری سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کو یقین ہے کہ مشرف کو سزا نہیں ہوگی لیکن خود مشرف کی اپنی حالت دیدنی ہے۔ موصوف خود کو بچانے کے لئے ایک دفعہ پھر فوج کو سیاست میںگھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھ پر مقدمہ بننے کے بعد فوج سخت ناراض ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ فوج مشرف کے دعوے کی تردید کرے کیونکہ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔ میری ناچیز رائے میں فوج کو اس معاملے میں خاموش رہناچاہئے کیونکہ مشرف فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی دانستہ کوشش کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ 2008 میں جب مشرف نے صدارت سے استعفیٰ دیا تو وہ فوج کی حمایت کھو چکے تھے۔اگر ان کے پاس فوج کی حمایت موجود ہوتی تو وہ کبھی صدارت نہ چھوڑتے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب ان کے کچھ باوردی خیرخواہوں نے انہیں صدارت سے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا تو انہو ں نے افواج پاکستان کے سپریم کمانڈرکی حیثیت سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے کیونکہ ان کے پاس فوج کی حمایت نہ تھی۔ فوج کی حمایت کیوں نہ تھی؟
فوج کی حمایت اس لئے نہ تھی کہ مشرف نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے فوج کی وردی کو نفرت کا نشان بنا دیا تھا۔ مشرف کے دور میں فوجی جوانوں اور افسروں نے وردی میں کنٹونمنٹ ایریاز سے باہر نکلنا بندکردیا تھا۔ مشرف کے دور میں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے لے کر بلوچستان تک ہرطر ف نفرتوں کی آگ پھیل گئی۔ ڈرون حملوں سے لےکر خودکش حملے مشرف حکومت کا تحفہ ہیں۔ مشرف نےظلم یہ کیا کہ اپنے کورکمانڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کئے۔ پھر پاکستان کے اڈوں سے پاکستان میں ڈرون حملے ہوتے تھےاور پاکستانی فوج سے کہا جاتا تھا کہ وہ ان حملوں کو اپنی کارروائی قرار دے۔ پاکستان کے آزاد میڈیا نے ڈرون حملوں کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو مشرف نے میڈیا والوںکو ملک دشمن قرار دینا شروع کردیا۔مشرف دور میں لاپتہ افراد کا معاملہ شروع ہوا جس نے آج پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر رکھا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مشرف کی پالیسیوں کا فوج کو بحیثیت ادارہ بہت نقصان ہوا کیونکہ فوجی جوان اور افسران کے لئے فوجی وردی پہننا مشکل ہوگیا لیکن مشرف سے خفیہ ادارے بہت خوش تھے کیونکہ خفیہ اداروں کے اہلکار فوجی وردی نہیں پہنتے۔ مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خفیہ اداروں کو لامحدود اختیارات دیئے۔ خفیہ اداروں کے افسران نے پاکستانی ریاست کے اندر اپنی ریاستیں بنالیں اور اسی لئے آج بھی خفیہ اداروں کے اندرکچھ افسران مشرف کو غداری کے مقدمے سے بچانے کے لئے سرگرم ہیں۔ ان خفیہ اداروں کے افسران خود تو سامنے نہیں آتے لیکن ان سے بھاری رقوم لے کر ان کے لئے کام کرنے والوں کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہے۔آپ دیکھ لیں کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں مشرف پر مقدمہ چلانے کی حامی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، تحریک ِ انصاف اور جماعت اسلامی سے لے کر جے یو آئی اوربلوچستان کی قوم پرست جماعتوں میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ صرف مسلم لیگ (ق) مشرف کو حیلےبہانوں سے بچانا چاہتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ مشرف کی کتاب ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ کو پڑھ لیجئے۔ مشرف نے اعتراف کیا ہے کہ 20اگست 2002 کو عام انتخابات سے چند ہفتے قبل انہوں نے مسلم لیگ (ق) بنائی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ مشرف نے فوجی وردی پہن کر ایک سیاسی جماعت بنائی اور آرمی چیف کے طور پر اپنے حلف سے غداری کی۔ اپنی کتاب میں اعتراف ِ جرم پر ان کے خلاف ایک علیحدہ مقدمہ بھی بن سکتا ہے اور اس مقدمے میں وہ اکیلے نہیں ہوںگےبلکہ طارق عزیز بھی شریک جرم بنیں گے کیونکہ مشرف نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن)کو توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنانے کا مشورہ طارق عزیز نے دیا تھا جو خود ایک سرکاری افسر تھے۔ پرویز مشرف نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ ایک سیاسی جماعت بنا کر اس کے ساتھ قائداعظمؒ کا نام لگا دیا۔
وہ قائداعظمؒ جنہوں نے اپنی زندگی میں مسلم لیگ کے مختلف اجلاسوںمیں فلسطینیوں کے حق میں 18قراردادیں منظو ر کیں اس قائداعظمؒ کے نام پر سیاسی جماعت بنانے والے مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ...... ’’پاکستان اب اسرائیل کو ایک یہودی ریاست اور ڈی فیکٹو حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے۔‘‘ آج میں قوم کے دانشوروں اور اہل سیاست و صحافت سے یہ پوچھتا ہوں کہ اگر کسی سیاستدان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی ہوتی تو اس کا کیا حشر ہوتا؟ ابھی تک پاکستان کی منتخب پارلیمینٹ نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن مشرف نے اپنی کتاب میں مبینہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیااور خفیہ اداروں کے منافق افسران آج بھی مشرف کے ناقدین کو اسرائیل و امریکہ کاایجنٹ قرار دلوا کر کونوں کھدروں میںکھسیانی ہنسی کے ذریعے خود کو فاتح عالم سمجھتے پھرتے ہیں۔ مشرف نےاپنی کتاب میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد سے لے کر 2006تک انہوں نے 689 دہشت گرد گرفتار کئے جن میں سے 369 کو امریکہ کے حوالے کیا گیا اور انعام کے طور پر لاکھوں ڈالر رقم حاصل کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ 369 افراد امریکہ کے حوالے کئے گئے باقی 320 کدھر گئے؟ ان میں سے کتنے افراد کو سزا دی گئی کتنےرہا کئے گئے؟ جس انعامی رقم کے حصول کا دعویٰ کیاگیا وہ رقم کدھر گئی اور کس نے استعمال کی؟ کہیں موصوف کے غیرملکی بنک اکائونٹس میں موجودلاکھوں ڈالر اسی رقم سے تو نہیں لئے گئے۔
آج مشرف بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے دور میں ڈالر 61 روپے کا تھا آج 100 روپے سے بھی مہنگا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ مشرف کے دور میں امریکہ ہمیں ہرسال ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے رہا تھا کیونکہ ہمارے فوجی اڈے امریکہ کے پاس تھے۔ پیپلزپارٹی کی کرپٹ اور غدارحکومت نےیہ فوجی اڈے امریکہ سےواپس لے لئے اور اب مسلم لیگ (ن)کی ملک دشمن حکومت بھی کوئی فوجی اڈہ امریکہ کو دینے پر راضی نہیں۔ ذرا سوچئے! اگر کسی سیاستدان نے اپنے فوجی اڈے امریکہ کو دیئے ہوتے تومیڈیا میں خفیہ اداروں کے ترجمان اس کا کیا حشر کر رہے ہوتے؟ پاکستان بدل رہا ہے۔ پاکستان میں نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ فوج کو مشرف کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے۔ ایک سینئر فوجی افسر نے مجھے بتایا کہ آج کل فوج میں مشرف دور کےچیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب بڑی پاپولر ہے۔ انہو ں نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ جب کورکمانڈر لاہورتھے تو ایک دن مشرف نے مجھے کہا کہ طارق عزیز نے لاہور ریس کورس میں 6ستمبر کو شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس کا اہتمام کیا ہے تم وہاںچیف گیسٹ بن جائو۔ شاہد عزیز نے معذرت کرلی۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کارگل کا معرکہ ایک غلطی تھی۔ مشرف نے کشمیرکاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مشرف ملک سے وفاداری کی بجائے اپنی ذات سے وفاداری کو اہمیت دیتے تھے۔ شاہد عزیز صاحب نےمشرف کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے..... ’’سب سے پہلے میں، پھر پاکستان‘‘ آج مشرف اپنی ذات کے لئے پاکستان کی فوج کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔ شاہد عزیز صاحب نے غلط تو نہیں لکھا ہے۔