سن اکیس سو میں پاکستان

September 24, 2023

یہ جو باتیں میں اس وقت کرنے لگا ہوں ۔یہ اس وقت کی ہیں جب میں نہیں ہونگا بلکہ میرے جیسے تمام لوگ قبروں میں سوچکے ہونگے اور خوش قسمت ہونگے وہ لوگ جن کی قبروں پر کوئی فاتحہ کیلئے آئے گا۔اس وقت صرف وہی موجود ہونگے جن کی عمریں اس وقت پندرہ سے بیس سال کے درمیان ہیں یا جوابھی بچے ہیں ۔میں اس صدی کے اختتامی برسوں کی بات کررہا ہوں یعنی جب پاکستان کی عمر ڈیڑھ سو سال سے زائد ہوجائے گی ۔میں نے پچھلی پون صدی پر نگاہ ڈالی ہے اور سوچا کہ اگر اسی طرح ہم پاکستان کو آگے بڑھاتےرہے کہ حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ تو اگلی پون صدی کے بعد کیا ہوگا۔ ۱نیس سو سینتالیس میں مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی آبادی تین کروڑ تھی ۔اس سال چوبیس کروڑ ہو چکی ہے ۔ آٹھ گنا بڑھ گئی ۔ اضافے کی یہ شانداررفتار ہمیں بتاتی ہے کہ سن اکیس سو میں پاکستان کی آبادی تقریباً ایک ارب اور نوے کروڑ ہوجائے گی۔آبادی ساری دنیا میں مسلسل بڑھ رہی ہے ۔مگر ترقی یافتہ ممالک نے اس کی ہولناکی کو سمجھتے ہوئے اس پر پوری طرح کنٹرول کیا ہوا ہے۔حتیٰ کہ چین نے بھی ۔بھارت بھی پوری کوشش کررہا ہے کہ آبادی کے عفریت پر قابو پالے مگر نائجیریا اورپاکستان جیسے ممالک میں اس کی رفتار بہت تیز ہے ۔ہم نے اگرچہ اس کے متعلق کبھی غور نہیں کیا مگر دنیا سوچتی ہے اور دیکھتی بھی ہے۔

ابھی تک امکان یہی ہے کہ جب پاکستان ڈیڑھ سو سال کا ہوگا توآبادی دو ارب کے نزدیک ہو جائے گی ۔میں سوچتا ہوں کہ ہم آبادی پر کنٹرول کی کوشش بھی کرلیں تو آبادی ڈیڑھ ارب تک پہنچ ہی جائے گی ۔چلیں ہم نے سختی سے اس کی روک تھام کی اور آبادی کے بڑھنے کی رفتار پر قابو پالیا تو پھر بھی ایک ارب سے کم نہیں ہوسکتی ۔یعنی پاکستان کا ہر شہر چار گنا بڑا ہو جائے گا۔گائوں قصبوں میں بدل جائیں گے ۔قصبے شہروں میں اور شہر ۔پتہ نہیں کس میں ۔ذرا سوچیں کہ لاہور ، کراچی ، اسلام آباد ، راولپنڈی ، فیصل آباد وغیرہ اگر چار گنا بڑے ہوجائیں تو اردگرد کے کتنے شہر ان میں ضم ہو جائیں گے ۔اسلام آباد کے بعد ہم نے کوئی نیا شہر آباد نہیں کیا اور نہ کہیں کسی اور نئے شہر کو آباد کرنے کا ارادہ دکھائی دیتا ہے ۔اقبال نے کہا تھا ’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد‘، کہیں کوئی اہل نظر رہیں گے تو کریں گے ۔ شہروں میں رقبے کی کمی کے سبب اونچے اونچے پلازے بنا دئیے جائیں گے جن میںفلیٹ ہی فلیٹ ہی ہونگے ۔یعنی بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کی معاشرت بھی تبدیل ہوجائے گی کیونکہ وہ چھوٹے نہیں رہیں گے ۔شہروں کے ارد گرد موجود تمام باغات اور کھیت آبادیوں میں بدل جائیں گے۔ہائوسنگ سو سائٹیز بھی رہائشی مسائل کا حل نہیں نکال سکیں گی۔کیونکہ غربت کے سبب قوتِ خرید کم ہو جائے گی ۔عام آدمی کیلئے مکان خریدنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔

کہتے ہیں جب پاکستان بنا تھا تو ڈالر ایک روپے کاتھا پون صدی میں تین سو کا ہوا ہے یعنی روپے کی قیمت تین سو گنا گری ہے ۔خود حساب لگا لیں اگلی پون صدی کے بعدبیچارے روپے کی کیا کیفیت ہو گی۔اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کی تعدادایک کروڑ سے زائد ہے ۔وہ اندازاًآٹھ کروڑ تک پہنچ جائے گی ۔پاکستان میں اس وقت چھ کروڑ کے قریب موٹر سائیکلیں ہیں ان کی تعداد کم ازکم چالیس کروڑ تک ضرور پہنچ جائے گی ۔یعنی سڑکیں کم پڑ جائیں گی ۔ٹریفک ہر شہر میں جام ہوا کرے گا ۔گیس اور تیل کے موجودہ ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ نئے ذخائر کی دریافت کا تعلق ہماری قسمت سے ہے جو ابھی تک تو بہتر نہیں لگ رہی ۔عمارتوں کی تعمیر میں اور جلانے کے لئے لکڑی کااتنا زیادہ استعمال ہوگا کہ جنگلات تباہی کے دہانے تک پہنچ جائیں گے ۔اناج کی صورتحال یہ ہوگی کہ ممکن ہی نہیں ہوگا کہ ہم اپنے کھیتوں سے اتنی فصل اٹھا سکیں کہ ایک ارب آبادی کا پیٹ بھرا جا سکے ۔زمین میں پانی ختم ہوجائے گااور جوہو گا وہ پینے کے قابل نہیں ہوگا۔دریا سکڑ جائیں گے۔جہاں آج کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں وہاںخشک سالی ہو گی ۔بارشیں نہ ہونے کے برابر ہونگی ۔فضائی آلودگی کے سبب سانس لینا محال ہو جائے گا۔علاج معالجے کی سہولتیں انتہائی مہنگی ہوجائیں گی ۔ لوگ علاج کرانے کی بجائے مرجانا زیادہ بہتر سمجھیں گے ۔ملک میں صرف دو طبقے رہ جائیں گے ایک امیر اور دوسرا غریب متوسط طبقہ بھی غریب طبقے میں گم ہوجائے گا ۔دونوں طبقوں کے ٹکرانے کا بھی امکان ہوگا۔ امیروں کی کوٹھیوں کی دیواروں کے اوپر خاردار تاریں لگی ہونگی ۔ دروازوں کے اندر اور باہر گارڈز کھڑے ہونگے ۔بپھرے ہوئے غریبوں کو کنٹرول کرنےکے نت نئے طریقے ایجاد کئےجائیں گے ۔کوئی خونی انقلاب بھی آ سکتا ہے ۔وہ اس سے پہلے بھی ممکن ہے ۔

یہ حالت صرف پاکستان کی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی ہوگی اور ترقی یافتہ اپنی سرحدیں سیل کردیں گے ۔ان ممالک کا ویزا قسمت والے کو ملا کرے گا ۔غریب ممالک اور امیر ممالک میں تفاوت بہت بڑھ چکا ہوگا۔دنیا کے وسائل پر امیر ممالک کا قبضہ ہوگا اور غریب ممالک جنگ پر آمادہ ہونگے ۔

یہ جو میں نے ایک امکانی نقشہ اپنی تاریخ کو دیکھ کر کھینچا ہے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو مگر اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اسے بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ ہم مسلسل اسی ضد میں ہیںکہ اللہ کو جو بہتری کرنی ہے خود کرے ہم ہاتھ نہیں ہلائیں گے۔ ہم مستقبل کا نہیں سوچیں گے ۔ہم اپنی نسلوں کے بارے میں غور نہیں کریں گے۔ ہم پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک نہیں بنائیںگے ۔ بس دعا کریں گے۔ جو ہم پون صدی سےکرتے آرہے ہیں مگر وہ ہماری دعائیں لوٹا دیتا ہے ہمارے اعمال دیکھ کر۔