نیا سال لے گیا میرے لوگ

January 24, 2014

سال کے ختم ہوتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کسی کو قدرت ہم سے دور نہ لے جائے اور سال کے شروع ہوتے ہوئے بھی یہی ڈر دامن گیر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ ڈر سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ اس سال ایک دن کے وقفے سے میری دو عزیز شخصیات دنیا چھوڑ گئیں۔ وارث علوی اور نیاز احمد۔ یہ کیا خزینہ تھا جس نے ہمارے واسطے چھوڑا بہت کچھ، رہتی دنیا تک لوگ ان کو یاد کریں گے مگر ہمارے زمانے کو یہ فخر حاصل ہے کہ ہم نے نہ صرف ان کے ساتھ شب و روز گزارے بلکہ ان کارناموں کو بھی دیکھا جو ناممکنات میں تھے۔نیاز صاحب جیسا کہ انتظار حسین صاحب نے لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے نول کشور تھے۔ طلسم ہوشربا اور الہلال کے سارے مسودے اور ساری جلدیں انہوں نے نہ صرف دوبارہ شائع کر کے ان کو زندگی بخشی بلکہ 1857ء کے حوالے سے جتنی انگریزوں کے زمانے میں اور بعد میں کتابیں شائع ہوئیں ان کو دوبارہ شائع کیا۔ لاہور سے متعلق جتنی بھی کتابیں ہو سکتی تھیں، وہ تمام تر شائع کیں۔ مستنصر کو کہیں کہ پروفیسر رفیق اختر کو یا بابا یحییٰ کو ان منزلوں پر پہنچایا جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ شہاب صاحب، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے بابا صاحب کو اتنا مقبول کرایا کہ چھوٹی سے چھوٹی لائبریری میں اور دکان میں یہ کتابیں مل جاتی ہیں۔ نیاز صاحب کم گو ایسے شخص تھے جو خاص لاہوری انداز کے کھانے پسند کرتے تھے۔ خود بھی کھاتے اور مہمانوں کو کھلا کر بہت خوش رہتے تھے۔ آخری تین سالوں میں کہ وہ بیمار تھے، ڈرائیور کے ساتھ اکیلے گوجرانوالہ تکّے کھانے کے لئے پہنچ جاتے تھے۔ مجھے اور انتظار صاحب کو نئی سے نئی کتاب مرتب کرنے پر اکساتے اور کتاب شائع ہونے سے پہلے رائلٹی پہنچا دیا کرتے تھے۔ نہ ہم نے ان سے کبھی پوچھا کہ کون سے ایڈیشن کی رائلٹی ہے اور نہ انہوں نےبتایا۔ ایک اعتماد تھا جو پبلشر اور لکھنے والے کے درمیان کم ہی قائم رہتا ہے۔ منٹو صاحب کی بیٹیوں کو جب نیاز صاحب نے رائلٹی دی تو وہ پریشان ہو گئیں کہ ہماری ماں کی زندگی میں تو کسی نے رائلٹی نہیں دی۔ یہ ہماری زندگی کا بھی خوش کن تجربہ ہے۔ ہندوستان کے ادیب جن میں عینی آپا، ڈاکٹر نارنگ اور ڈاکٹر شمیم حنفی شامل ہیں،ان کو باقاعدہ رائلٹی ہم ہندوستان جانے والوں کے ذریعہ یا کبھی وہ خود آتے تو لفافہ پکڑاتے ہوئے یہ بھی نہیں کہتے تھے کہ رسید پر دستخط کر دیں۔ شہناز اعجاز الدین نے جب طلسم ہوشربا کا انگریزی میں ترجمہ کرنا شروع کیا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
پبلشر اور مصنف میں ساس بہو کا سا رشتہ ہوتا ہے مگر نیاز صاحب نے تو ہم سب کو اپنے خاندان میں شامل کر لیاتھا۔کسی کے گھر خوشی غمی ہو،نیاز صاحب ہر جگہ موجود ہوتے تھے۔ جو کام اعجاز مرحوم ادھورے چھوڑ گیا تھا، ان سب کو دکھی دل کے ساتھ پورا کرتے رہے۔ وہ تو افضال نے بڑی ملائمت اور صبر کے ساتھ ایسے کام کیا کہ اعجاز کا غم مندمل ہو گیا۔ تاریخ میں کم ہی ایسے پبلشر رہے ہیں جنہوں نے یوں اپنا ادیبوں کا قبیلہ بنایا ہو۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز کے نیاز صاحب بھی بالکل اسی طرح ادیبوں سے محبت کرتے تھے۔ فیروز سنز کے مالک بھی آج تک اپنے نام کے ساتھ زندہ ہیں۔دوسری بڑی شخصیت جس نے ادب میں نام کمایا، نئےلکھنےوالوں کورستہ دکھایا،وہ تھےوارث علوی صاحب ، وہ بلا کسی رو رعایت کے دوستوں پر بھی تنقید کرتے تھے اور لکھتے وقت ایک دم جو مزاح اپناتے اور لوگوں کا موڈ بدلتے، یہ انہی کا حصہ تھا۔ انہوں نے شاعری پر کم اور افسانہ نگاروں پر زیادہ لکھا۔ ان کے مضمون کی طوالت میں عصری اور عالمی ادب کے تجزئیے بھی شامل ہوتے تھے۔ میں نے جب بھی ان سے کہا کہ آپ تانیثیت پر کیوں نہیں لکھتے؟ وہ ہمیشہ کہتے یہ میرا مضمون نہیں ہے۔ باقرمہدی کو کہو اور اس مضمون کی موشگافیاں نکالے۔ یوں تو لحاظ میں آ کر انہوں نے کئی چھوٹے ادیبوں کو حوصلہ دینے کیلئے مضامین لکھے مگر وہ تحریر کا اچھوتا انداز کہیں ساتھ چھوڑتا نظر نہیں آیا۔
پچھلے دنوں مجھے لطیف الزماں صاحب کا ٹیلیفون آیا۔ وہ اپنے لکھے ہوئے اور ان کے نام لکھے ہوئے خطوط جمع کر رہے تھے۔ میں نے بہت معذرت کے ساتھ کہا کہ دفتری خطوط میں دفتر کی فائل ہی میں رکھوا دیا کرتی تھی۔ میری کم نصیبی کہ میرے پاس آپ کا کوئی خط نہیں ہے۔ وہ غالب کے سلسلے میں میری تصحیح کرتے رہتے تھے۔ جب میں ماہ نو کی ادارت کر رہی تھی، میرے اندر اتنی عقل ہی نہیں تھی کہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی سے لے کر پروفیسر حمید احمد خان اورپروفیسر عثمان جیسے جید لوگوں کے خطوط کو اپنی فائل میں لگا دیتی۔ مگر میں نے فیضی صاحب یا سبطِ بھائی جیسی کسی نابغۂ روزگار شخصیت کے خطوط سنبھال کر ہی نہیں رکھے۔ افسوس ہوتا ہے کہ میرے نام شاہد احمد دہلوی نے بھی خط لکھا اور مجھے سنبھالنے کا سلیقہ نہیں آیا۔ اشرف صبوحی، میرے نام کی پرچیاں، حبیب اللہ اوج کے کمرے سے لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ میں نے ان کی قدر ہی نہ کی۔ میرے آس پاس اتنے لوگ تھے، میں نے تو ان کی تصاویر بھی سنبھال کر نہیں رکھیں مگر میں تو اپنی غزلیں، نظمیں بھی ادھر ادھر سے مانگ کر کتاب بناتی ہوں۔ شاید اس لئے کہ لکھنا تو مجبوری ہے، اس کے بعد ایسا اطمینان ہوتا ہے کہ آگے کو نئے خیال کی جانب نظر چلی جاتی ہے۔ اللہ سلامت رکھے زاہد ڈار کو کہ آج کل وہ بہت بیمار ہے۔ بچّوں کی طرح اپنی ضدیں نہیں چھوڑتا۔ اپنی طرز کا وہ ایک انوکھا آدمی ہے۔ زندگی کے سارے ذائقے کتابوں میں تلاش کرتے کرتے تھک کر کچھ رشتے بنانے کی اسی طرح کوشش ہے جیسے سوہنی کو اپنے کچّے گھڑے کی تلاش تھی۔